بھلائی گئی جنت: والدین کی توقیر وخدمت

کتاب کی وضاحتیں

اوپر: خدامیان آرانی، مہدی، 1353 -

مصنف کا عنوان اور عنوان: بھلائی گئی جنت: والدین کی توقیر وخدمت/ مولف مہدی خدامیان آرانی.ترجمہ: مولانا صادق عباس

اشاعت کی تفصیلات: لاہور: موسسۃ آل البیت علیه السلام ، 1397.

ظہور: 102 ص.؛ 14/5×21/5 س م.

فراسٹ: کاموں کا مجموعہ؛ 19.

ISBN: 35000 ریال: 978-600-8449-31-7

فہرست کی حیثیت : فاپا

موضوع : Khuddamiyan Arani

موضوع : والدین اور بچوں (فقہ)

موضوع : Parent and child (Islamic law)

موضوع : والدین اور بچوں - کہانیاں

موضوع : Parent and child-- Fiction

کی درجہ بندی دیویی : 297/646

کانگریس کی درجہ بندی : BP253/6/خ4ب9 1396

قومی بائبل نمبر : 4749807

ص:1

اشاره

والدین کی توقیر وخدمت

تالیف : ڈاکٹرمھدی خدامیان آرانی

ترجمہ:مولانا صادق عباس

پیشکش:الفاطمہ ہاؤس واپڈا ٹاؤن

ناشر:موسسۃ آل البیت علیه السلام لاہور

ص:2

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہیں

نام کتاب: بھلائی گئی جنت

تالیف : ڈاکٹرمھدی خدامیان آرانی

ترجمہ:مولانا صادق عباس

پروف ریڈنگ:مقصود حسین علوی

سال اشاعت : ربیع الثانی 1439 ہجری بمطابق 2018

پیشکش:الفاطمہ ہاؤس واپڈا ٹاؤن

ناشر:موسسۃ آل البیت علیه السلام لاہور

ص:3

فہرست

پیش لفظ5

حرف ترجم7

سخن مئولف9

اس تیزی سے کہاں جارہے ہو11

اس جوان کی ماں کہاں ہے؟16

چار نظروں کا عبادت ہونا20

خدا کے نزدیک بہترین اعمال ؟22

آسمانوں پر کیا ہورہا ہے؟26

والدین کو ایک نظر دیکھنا،حج کا ثواب29

ایک رات چودہ صدیوں کی عبادت35

والدین کے ساتھ سختی سے بولنا؟40

ص:4

گائے کی کھال سونے سے بھر گئی45

کیا طولعمر چاہتے ہیں ؟55

نگاہ تلخ ، قبولیت نماز میں رکاوٹ58

مہربانی کا راز60

توبہ کا بہترین راستہ64

والدین کا خیال کرنا ؟69

طلب خیر کی چاہت74

بہت بڑی عبادت کا کشف کرنا؟78

جنت کی خوشبو کا احساس؟82

حوالہ جات91

ص:5

پیش لفظ

عالی مرتبت مدظلّہ العالی جناب ڈاکٹرمھدی خدامیان آرانی کی فارسی کتب کی اہمیت و مقبولیت مسلمہ ہے۔ ان میں سے ’’مکالمہ جات‘‘ مفادِ عامہ کے لیے حکایات ہیں جو خاص طور پر معروف ہیں۔ قبلہ مولانا صادق عباس نے ’’مکالمہ جات‘‘ کا اردو ترجمہ کرنے کا بیڑا اٹھایا اور مجھے یہ موقع فراہم فرمایا کہ میں عظمت و خدمتِ والدین پر تحریر کردہ کتاب کی طباعت و اشاعت کا ذمہ لوں اور یوں اپنی بڑی بہن محترمہ عذراء بخاری اور ان کے شوہر ڈاکٹر کرنل حسنین بخاری کی بلندیِ درجات کے لیے اس کارِ خیر میں شریک ہو سکوں۔ بہن عذرا بخاری کی حالیہ وفات سے ہمارے خاندان میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ ناقابل تلافی نقصان ہے کیونکہ بھائی بخاری صاحب کے بعد بہن عذرا بخاری جس طرح اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ نہ صرف مجھ سے پریشان حال بلکہ پورے خاندان کے لئے سائبان بنیں ، وہ دونوں اس کتاب کے عنوان کے صحیح مصداق ہیں۔ انہوں نے اپنے

ص:6

والدین ، بالخصوص اپنی اپنی والدہ ، کی جس طرح خدمت کی وہ ایک قابلِ تقلید مثال اور کتاب میں درج آئمہ کرام کے فرامین کی عملی شکل ہے۔ بہن عذرا بخاری نہایت شفیق، ہمدرد اور غمگسار ہستی تھیں اور ان کے شوہر کرنل بخاری، جو اپنے شعبہ میں ایک عالمی شخصیت تھے، ایمانداری، تقویٰ اور انسانی ہمدردی و خدمت گزاری میں فقیدالمثال تھے۔ ربِّ ذوالجلال ان دونوں ہستیوں کو جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کا انجام محبانِ اہل بیت کے ساتھ ہو۔دعا ہے کہ میری یہ حقیر سی کوشش ہم سب افرادِ خانہ اور مرحومین کے لئے توشہ آخرت اور سامانِ مغفرت بنے ۔

متمنی دعا

انور نقوی

ص:7

حرف مترجم

ہمارا وجود ہمارے والدین کی وجہ سے ہے ،والدین ہی اولاد کی پرورش وتربیت کے فرائض کو انجام دیتے ہیں وہ اپنی خوشیوں کو اولاد کی خوشیوں پرقربان کردیتے ہیں ۔تمام ادیان میں خواہ مادی ہوں یا الہی والدین کی عزت و توقیر کا حکم دیا گیا ہے ۔

آقائے مہدی خدامیان آرانی کا انداز تحریر انتہائی عام فہم اور اتمام حجت والا ہے ان کی کتب کا مطالعہ کرنے کےبعد انسان اپنی ذمہ داری سے روگردانی نہیں کرسکتا ۔ترجمہ کرتے ہوئے بندہ نے یہی کوشش کی ہے کہ روانی اور سادگی کو ہی معیاربنایا جائےکیونکہ ایک مبلغ کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری بھی یہی ہے کہ عوام الناس کو ان کے فرائض سے آگاہ کیا جائے ۔اس کتاب کے ترجمہ واشاعت میں الفاطمہ ہاؤس میں نمازپڑھنے والے مومنین کی دعائوں اور جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے نام سےمنسوب مقام کا خاص اثر ہے کہ یہ کام بروقت انجام پذیر ہو سکا ۔ پروردگار سےدعا ہے کہ الفاطمہ ہاؤس کی تعمیر و ترقی ،آبادکاری میں حصہ لینے

ص:8

والے مومنین کی توفیقات خیر میں اضافہ ہو اوراللہ تعالی ان کے رزق میں وسعت و برکت فرمائے۔

قارئین سے التماس ہے ایک مرتبہ سورۃ فاتحہ تین مرتبہ سورۃ اخلاص کی تلاوت کا ثواب جملہ مومنین و مومنات بالخصوص انور نقوی صاحب کی بڑی بہن، بہنوئی، بھائی، بیٹی، خالہ، سسر، والدین اور پبلشرسادات پرنٹر کے والد کو ہدیہ فرما دیں۔

صادق عباس

خطیب وامام جمعہ الفاطمہ ہاؤس

واپڈا ٹاؤن لاہور

ص:9

سخن مئولف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کیا آپ اپنے والدین کو چاہتے ہیں؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ اپنے والدین کے ساتھ پہلے سے زیادہ محبت سے پیش آئیں؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ اپنے والدین کے دل کو خوش کرکے آپ کیسے آسمانوں کی بلندیوں تک پرواز کرسکتے ہیں؟ اگر آپ کے ماں باپ آپ سے راضی ہوں تو خدا بھی آپ سے خوش ہوتاہے؟

اے میرے بھائیو، بہنو! کیا آپ خدا کی بے پناہ رحمت سے متصل ہونا چاہتے ہیں؟ کیا آ پ چاہتے ہیں کہ خدا اپنی رحمت خاص سے آپ پر نظر کرے؟

آئیں اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کریں، آئیں ان کے ساتھ مہربانی و شفقت سے پیش آئیں۔

یہ کتاب ان کے لیے لکھی ہے جو اپنے والدین کی خدمت کرکے دنیا و آخرت کی زندگی کو سنوارنا چاہتے ہیں۔

ص:10

میں نے کوشش کی ہے دینی تعلیمات کو ایک نئی نظر سے دیکھا جائے تاکہ والدین کے ساتھ پیار و محبت سے پیش آنے میں آپ کی مدد کرسکوں۔

میں نے یہ کتات آپ کے لیے لکھی ہے اب آپ کی باری ہے کہ اس کو پڑھیں اور جان لیں کہ آپ کے ماں باپ ہی آپ کی گمشدہ جنت ہیں۔

اس کتاب کو اپنے والدین کی خدمت میں پیش کرتاہوں جو کہ جنتی تو ہیں ہی اور مجھے بھی وہاں تک پہنچانے میں مدد گار ہیں۔

قم المقدس

ڈاکٹر مہدی خدامیان آرانی

ص:11

اس تیز ی سے کہاں جارہے ہو؟

نہیں جانتا کہ آپ نے کبھی اس چیز کی طرف غور کیا ہے کہ کونسا کام ،خدا کو جلدی خوش کرنے میں مددگار ہوتاہے؟

میں نے ایک دن ارادہ کیا کہ اپنے تمام کاموں پر توجہ کروں کہ کون سا کام خدا کو جلد راضی کرنے اور اس کی توجہ حاصل کرنے کا سبب بنتاہے۔

اسی لیے اس کام پر بہت غور و فکر کیا۔

درحقیقت میں نے ایک مسابقہ کا انعقاد کیا تھا اور دیکھنا چاہتاتھا کہ میرا کون سا کام مجھے خدا کی آغوشِ رحمت میں لے جاتاہے۔

قارئین محترم!

کیا آپ نے بھی کبھی اس کے بارے میں غور و فکر کیا ہے؟

جانتاہوں کہ آپ نے زندگی میں بہت زیادہ اچھے کام انجام دیئے ہوں گے، کیا آپ کو یاد ہے ،کہ لباس احرام پہن کر خانہ کعبہ کے گرد طواف کررہے تھے؟ کیا یاد ہے کہ کس طرح غربا و فقراء کی مدد کرتے تھے؟

ص:12

رمضان المبارک کی شبہائے قدر میں کس طرح سے دعاو مناجات میں مصروف رہے؟

کیا ان کاموں میں سے کو نسا کام سب سے جلد اور پہلے ہمیں رحمت خدا سے ملا دیتاہے؟

جی ہاں! خدا ہمارا منتظر رہتاہے ،کہ کسی بہانہ سے اس کی طرف رجوع کریں تاکہ وہ ہمیں اپنی آغوش رحمت میں جگہ دے ،خوش نصیب ہیں، وہ لوگ جنہوں نے اس مزے کا ذائقہ چکھا اور ان کے دل کو سکون ملا۔

کیا آپ اتفاق کریں گے کہ کچھ دیر کے لیے امام جعفر صادق علیه السلام کی خدمت میں جائیں اور آپ سے ہی سوال کریں: اے ہمارے سردار ہمیں بتائیں کہ کونساایسا کام کریں جس سے خدا ہم سے جلد راضی اور خوش ہوجائے ؟ اور ہمیں رحمت الٰہیہ سے متصل کردے؟

لطف کی بات تو یہ ہے کہ ایسی خوبیوں کے امام ،نے کئی سو سال قبل میرے اور آپ کے سوال کا جواب دے دیا تھا:ماں باپ کے احترام

ص:13

سے بڑھ کر ،کوئی بھی عبادت جلد از جلد خدا کی خوشنودی کا سبب نہیں بن سکتی(1)

اے میرے دوست؛ امام علیہ السلام کے اس فرمان پر غور کریں۔ ماں باپ کے احترام کی اتنی زیادہ تاکید کیوں کی گئی ہے؟

والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنےکی بجائے ان کے احترام کا کیوں ذکر کیا گیاہے؟

آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ احترام کرنا، اچھا برتاؤ کرنے سے کئی درجہ بلندہے،ممکن ہے ایک شخص اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرے ،ان کے تمام امور کی دیکھ بھال کرے ،ان کے لیے تمام مادی امکانات فراہم کرے ،لیکن دل سے انہیں خدا حافظ کہہ چکا ہو۔

ایسی خدمت خدا کی خوشنودی کا سبب نہیں بن سکتی اور ہمیں اس کی رحمت کی طرف جذب نہیں کرسکتی۔

ہمیں چاہیے کہ اپنے دل میں والدین کو جگہ دیں دل سے ان کی خدمت کریں ان سے عشق کریں یہی والدین کی عزت و احترام ہے۔


1- . قال الصادق(علیه السلام): «برّ الوالدین من حسن معرفة العبد بالله ، إذ لا عبادة أسرع بلوغاً بصاحبها إلی رضی الله من حرمة الوالدین المسلمین لوجه الله تعالی ; لأنّ حقّ الوالدین مشتقّ من حقّ الله تعالی إذا کانا علی منهاج الدین والسنّة...»: التفسیر الصافی ج 4 ص 144، تفسیر نور الثقلین ج 4 ص 202، بحار الأنوار ج 71 ص 77، مستدرک الوسائل ج 15 ص 198. رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم): «... یا معشر الملسمن ، اتّقوا الله وصلوا أرحامکم فإنّه لیس من ثواب أسرع من صلة الرحم وعقوق الوالدین، فإنّ ریح الجنّة یوجد من مسیرة ألف عام ، والله لا یجدها قاطع رحم ولا شیخ زان»: مجمع الزاوئد ج 5 ص 125، ج 8 ص 149، المعجم الأوسط ج 6 ص 18، کنز العمّال ج 16 ص 96، الکامل لابن عدی ج 1386، تاریخ مدینة دمشق ج 18 ص 81.

ص:14

اگر آپ لاکھوں روپے تو انہیں دیں لیکن دل سے ان کی عزت نہ کریں، تو وہ بہت جلد سمجھ جاتے ہیں، کہ آپ یہ سب کچھ ان پر رحم کھاتے ہوئے کررہے ہیں۔ اس عمل سے ،والدین بہت دکھی ہوتے ہیں۔

آپ کو چاہیے کہ اپنے والدین کے ساتھ عشق کریں اور اس عشق پر فخر کریں یہی عشق ان کی خدمت ہے۔

شاید آپ ان کی بہت زیادہ مالی امداد نہ کرسکیں ،لیکن دل سے ان کا احترام کرتے ہیں تو ان کےدل میں آپ کے لیے بہت زیادہ جگہ اور عزت و احترام ہوگا۔

یہ یقین رکھیں کہ والدین جلد ہی سمجھ جاتے ہیں کہ آپ نے انہیں دل میں کتنی جگہ دے رکھی ہے یا نہیں!

اگر خدانخواستہ آپ غرور و تکبر کا شکار ہوجائیں اور والدین کے ساتھ عشق و محبت کو اپنی کسرشان سمجھیں اور ان کی خدمت کو اپنی ہتک سمجھیں ،تو جان لیں والدین ہرگز آپ کو کچھ نہ کہیں گے ،لیکن آپ کی نظروں کو وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں۔

ص:15

اور اس طرح جان لیں کہ آپ نے ایک بہت بڑی عبادت کو ضائع کردیاہے اور پھر ایک طویل عرصہ کے بعد آپ کو یاد آئے گا، جب آپ ان کی قبر پر بیٹھ کر افسوس کررہے ہوں گے ،کاش آج میرے والدین زندہ ہوتے تاکہ اپنے عشق کا اظہار کرسکتا، لیکن افسوس اب وقت گذر چکاہے۔

پس جب تک والدین آپ کے پاس ہیں، ان سے عشق و محبت کریں تاکہ جب خدا آپ کے اس عزت و احترام کو دیکھے تو آپ سے راضی ہو ،کیونکہ خدا کی رضایت والدین کی رضایت کے گروی ہے(1)

خدا کی رضا و خوشنودی سے بڑھ کر کونسا تمغہ ہوسکتاہے۔

بلاوجہ نہیں ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب میں سے ایک کو فرمایا:"اپنے ماں باپ سے اچھا برتاو کرو تو تمہارا اجر جنت ہوگی: (2)

جی ہاں ،والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ نیکی سے پیش آنا اس دنیا میں انسان کی زندگی کی خوشبختی اور آخرت میں جنت میں جگہ دلواتی ہے۔


1- . رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم): «رضی الربّ فی رضی الوالدین ، وسخطه فی سخط الوالدین»: تفسیر القرطبی ج 5 ص 183، مستدرک الوسائل ج 15 ص 175.
2- . الإمام الکاظم(علیه السلام): «قال رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم): کن بارّاً واقتصر علی الجنّة، وإن کنت عاقّاً فاقتصر علی النار»: الکافی ج 2 ص 348، بحار الأنوار ج 71 ص 60، جامع أحادیث الشیعة ج 21 ص 443. وقال العلاّمة المجلسی فی شرح الحدیث: فاقتصر علی الجنّة: أی اکتف بها، وفیه تعظیم أجر البرّ ، حتّی أنّه یوجب دخول الجنّة، ویفهم منه أنّه یکفّر کثیراً من السیئات، ویرجّح علیها فی میزان الحساب: بحار الأنوار ج 71 ص 60.

ص:16

اس جوان کی ماں کہاں ہے؟

حضرت رسول اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کو اطلاع دی گئی کہ مدینہ کا ایک جوان زندگی کے آخری لمحات گزار رہاہے۔

حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم یہ خبر سنتے ہی اپنے اصحاب کے ہمراہ اس جوان کے گھر کی طرف گئے۔

پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم اس کے گھر میں داخل ہوئے اور اس جوان کے پاس بیٹھ گئے ۔

جب اس جوان نے اپنی آنکھوں کو کھولا تو نبی رحمت صلی الله علیه و آله و سلم کو اپنے پاس پایا یہ وہ لمحہ تھا جب اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے

وہ آنحضرت صلی الله علیه و آله و سلم کو دیکھ سکتا تھا لیکن بات کرنے کی طاقت نہ تھی۔

جان نکلنے کے لمحات کی سختی نے ،اس کی زبان پر بند لگا دیا تھا گویا اب وہ بولنے کی طاقت نہ رکھتا تھا۔

آپ نہیں جانتے کہ وہ شخص کتنی سختی کے لمحات سے گرز رہا تھا۔

ص:17

اچھا ہے اس وقت دعا کریں کہ جان کنی کے سخت لمحات میں ،پیغمبراکرم صلی الله علیه و آله و سلم ہمارے بھی مددگار ہوں۔

تمام لوگ سمجھ گئے تھے کہ اب اس نوجوان کے بچنے کی کوئی امید نہیں ہے لوگوں کی نظریں اس جوان اور پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم پر لگی ہوئی تھیں کہ ان لمحات میں پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم اس کے لیے کیا کرتے ہیں۔

آنحضرت صلی الله علیه و آله و سلم اس نوجوان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : اے جوان خدا کی یگانگت کا اقرار کرو اور ان کلمات کو اپنی زبان پر جاری کرو(لاالہ الااللہ )

وہ جوان جتنی بھی کوشش کرتا ،اس کی زبان پر یہ کلمات جاری نہ ہوتے۔وہ ان کلمات کو ادا نہیں کرسکتا تھا، سب لوگ سوچ میں پڑ گئے کہ اس نوجوان نے کیا ،کیاہے کہ اس مصیبت سے دوچار ہے۔اب اسے کس گناہ کی سزا مل رہی ہے؟ کیا اس نوجوان کو نجات ملے گی؟

یہاں پرآنحضرت صلی الله علیه و آله و سلم نے کہا اس کی والدہ کو بلایا جائے۔

ص:18

اتفاقا ،ماں بھی وہاں پر موجود تھی آنحضرت صلی الله علیه و آله و سلم اس عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا تم اس سے ناراض ہو؟

ماں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہا: یا رسول اللہ میں اس سے ناراض ہوں گذشتہ چھ ماہ سے اس نے میرے ساتھ کلام تک نہیں کی

اب پتہ چل رہاہے کہ جان دیتے وقت اس نوجوان کی زبان کیوں بند ہو گئی تھی۔

اس کا سب سے بڑا گناہ یہ تھا کہ اس کی ماں اس سے راضی نہ تھی۔

اس نے اپنی ماں کا دل دکھایا تھا، اب اسی طرح جان دینی چاہیے۔

پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم نے اس عورت سے کہا: میں چاہتاہو ں کہ اب اس کو معاف کردیں اور اس سے راضی ہو جائیں ۔

ماں نے جب رسالتماب صلی الله علیه و آله و سلم کی بات سنی ،تو کہا یا رسول اللہ صلی الله علیه و آله و سلم میں اس کو معاف کرتی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ اللہ بھی اسے معاف کردے۔

ص:19

یہ بات سنتے ہی حضرت محمد صلی الله علیه و آله و سلم کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔پھر آپ نے اس نوجوان سے کہااب کہو لا الہ الااللہ اس نے بلند آواز سے کہا۔

جی ہاں ،جونہی اس کی ماں راضی ہوئی اسکی جان دینے کی سختیاں بھی ختم ہوگیں(1)


1- . لإمام الصادق(علیه السلام): «إنّ رسول الله حضر شابّاً عند وفاته فقال له: قل: لا إله إلاّ الله، قال: فاعتقل لسانه مراراً ، فقال لامرأة عند رأسه: هل لهذا أُمّ؟ قالت: نعم ، أنا أُمّه، قال أفساخطة أنت علیه؟ قالت: نعم، ما کلّمته منذ ستّ حجج، قال لها: أرضی عنه، قالت رضی الله عنه برضاک یا رسول الله. فقال له رسول الله: قل لا إله إلاّ الله قال: فقالها...»: الأمالی للمفید ص287، الأمالی للطوسی ص 65، مستدرک الوسائل ج 2 ص 128، بحار الأنوار ج 71 ص 75، ج 78 ص 232، ج 92 ص 342.

ص:20

چار، نظروں کاعبادت ہونا

اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے بہتر ہے کہ مکہ کا سفر کریں،گویا تھوڑی سی تاخیر ہو گئی ہے۔ حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم رحلت فرما چکے ہیں۔

اب جب کہ وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ،بہتر ہے کہ ان کے سچے ترین صحابی کے ہاں جائیں

اتنے لوگوں میں حضرت ابو ذر کو ڈھونڈتے ہیں ،کیونکہ وہ اپنے دور کے سچے ترین صحابی رسول ہیں۔

میرے اللہ: کہاں سے حضرت ابو ذر کو ڈھونڈیں ؟ کیا آپ نے انہیں دیکھا ہے؟

کچھ تلاش کے بعد پتہ چلا ،کہ حضرت ابوذر اس وقت خانہ کعبہ کے پاس ہیں۔

جلدی سے خود کو مسجد الحرام پہنچایا۔ اتنی بڑی تعداد میں ان کو تلاش کیا ہے، سلام کرنے کے بعد اُن کے چہرے کا بوسہ لیا، ان کے پاس بیٹھتے ہیں اوربات چیت شروع کرتے ہیں۔

ص:21

کافی دیر سے ہم ان کی تلاش میں تھے اب جبکہ مل گئے ہیں،دیکھتے ہیں کہ حضرت ابو ذر ایک طرف دیکھ رہے ہیں اور آنکھیں ہی وہاں سے نہیں ہٹاتے۔

میرے اللہ:وہاں کیا ہو رہا ہے؟ حضرت ابوذر وہاں سے نظریں کیوں نہیں ہٹاتے ؟جانتے ہیں کسے دیکھ رہے ہیں ؟

کاش آپ بھی اس منظر کو دیکھتے، حضرت ابو ذر کس طرح ان کے جمال میں مبہوت ہوگئے ہیں ،نہ جانے کتنی دیر گذر گئی لیکن ابو زر صرف حضرت علی علیه السلام کے چہرے کی طرف ہی دیکھتے رہے !

ان سے پوچھتے ہیں: کہ نظریں علی علیه السلام کے چہرے سے کیوں نہیں ہٹاتے؟انہوں نے جواب میں کہا: میں اس کام کو اس لئےکرتا ہوں کیونکہ میں نےحضرت رسول اکرم صلی الله علیه و آله و سلم سے سنا ہے۔’’ اگر چار چیزوں کی طرف دیکھو تو تمہارا دیکھنا بھی عبادت شمار ہوگا۔علی علیہ السلام کے چہرے کی طرف دیکھنا،ماں باپ کے چہرے کی طرف محبت سے دیکھنا،قرآن کی طرف دیکھنا اور کعبہ کو دیکھنا۔

ص:22

خدا کے نزدیک بہترین اعمال ؟

آج یہ سوچ رہا تھا کہ خداوند کریم کس کام کو سب سے زیادہ پسندکرتاہے۔ بیشک خدا وند خوبصورت ہے ،ہمارے کن اعمال کو خوبصورت دیکھتاہے اور پسند کرتاہے۔

قارئین محترم ، کیا آپ میری مدد کرنا چاہیں گے؟

کیونکہ میں ہر حالت میں، اس اچھے کام کو انجام دے کر خدا کا تقرب حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔

اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے چودہ سو سال قبل شہر مدینہ میں مسجد نبوی صلی الله علیه و آله و سلم جاتے ہیں۔

دیکھیں تو صحیح کس طرح اصحاب رسول اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کے گرد حلقہ بنائے ہوئے ہیں! ایک شمع سینکٹروں پروانوں کے درمیان!

سب ہمہ تن گوش آنحضرت صلی الله علیه و آله و سلم کے ارشادات کو سن رہے ہیں۔

اسی دوران میری نظر ابن مسعود پر پڑی جو بے صبری سے انتظار کررہے ہیں ،کہ آنحضرت صلی الله علیه و آله و سلم سے سوال کریں۔

ص:23

کیا آپ ابن مسعود کو جانتے ہیں؟ وہ آنحضرت صلی الله علیه و آله و سلم کے ایک صحابی اور مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے والوں میں سے تھے۔

وہ پہلے صحابی ہیں کہ جو مکہ میں لوگوں کوبلند آواز میں قرآن سناتے تھے۔(1)

بہرحال میں ابن مسعود کے وجود میں سوال کرنے کی پیاس اور جاننے کا جذبہ دیکھ رہاہوں، وہ مناسب موقع کی تلاش میں ہیں کہ آنحضرت صلی الله علیه و آله و سلم سے پوچھ سکیں۔

اس کا سوال یہ ہے: یا رسول اللہ جاننا چاہتاہوں کہ خدا اپنے بندوں کے کن کاموں کو سب سے زیادہ پسند کرتاہے۔

حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم نے فرمایا: خداوند عالم نما ز اول وقت کو ہمیشہ تمام کاموں سے زیادہ پسند کرتاہے۔

جی ہاں ،نماز دین کا ستون ہے اور مومن کی معراج ہے اس کے ذریعے مومن کمال کی سیٹرھیوں کو طے کرکے خدا سے ملاقات کرتاہے۔


1- . تاریخ مدینة دمشق ج 33 ص 51، أُسد الغابة ج 3 ص 256، تهذیب الکمال ج 16 ص 121، سیر أعلام النبلاء ج 1 ص 461، الإصابة ج 4 ص 198، تقریب التهذیب ج 1 ص 533.

ص:24

ابن مسعود بات آگے بڑھاتے ہیں: کیا رسول اللہ صلی الله علیه و آله و سلم نماز اول وقت کے بعد خدا کس کام کو سب سے زیادہ پسند کرتاہے؟

حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلمدیکھتے ہیں کہ ابن مسعود کس قدرکمال کی تلاش میں ہیں ،فرماتے ہیں: خدا وند نماز کے بعد والدین کی عزت و احترام کو سب کاموں سے زیادہ پسند کرتا ہے۔

ابن مسعود سوال کرتے ہیں: اس کے بعد خدا کس کام کو زیادہ پسند کرتا ہے؟

حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم نے فرمایا: راہ خدا میں جہاد(1)

میرے عزیز دوست!اگر رسول خدا کے فرمان پر غور کیا جائے ،تو پتہ چلتاہے کہ خدا والدین کے ساتھ نیکی اور احترام کو خدا کی راہ میں جہاد سے زیادہ پسند کرتاہے۔

تو کیا راہ خدا میں جہاد کرنے کا ثواب زیادہ نہیں ہےٖ؟ روزقیامت جنت کا ایک مخصوص دروازہ راہ خدا میں جہاد کرنے والوں کے لیے مخصوص ہے۔


1- . عن ابن مسعود قال: «سألت رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم): أیّ الأعمال أحبّ إلی الله عزّ وجلّ؟ قال: الصلاة لوقتها، قلت: ثمّ أیّ شیء؟ قال: برّ الوالدین، قلت: ثمّ أیّ شیء؟ قال: الجهاد فی سبیل الله عزّ وجلّ»: صحیح مسلم ج 1 ص 93، سنن النسائی ج 1 ص 293، صحیح ابن حبّان ج 4 ص 338، المعجم الکبیر ج 10 ص 19، تاریخ بغداد ج 3 ص 423، المجموع للنووی ج 4 ص 3، سبل السلام ج 1 ص 116، الخصال ص 163، بحار الأنوارج 71 ص 70.

ص:25

اسکے باوجود، ہمارا دین والدین کے احترام کو راہ خدا میں جہاد سے افضل سمجھتاہے ۔

بہت عجیب بات ہے کہ ہم ماں باپ کے ہوتے ہوئے خداکی رحمت و بخشش کو اپنی جانب مبذول نہ کرا سکیں ،کیونکہ والدین کے احترام اور ان سے نیکی کرکے ہم خدا کے لطف و کرم کو اپنی جانب مبذول کرا سکتے ہیں۔(1)


1- . الإمام الباقر(علیه السلام): «قال رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم): من أدرک شهر رمضان فلم یُغفر له فأبعده الله، ومن أدرک والدیه فلم یُغفر له فأبعده الله، ومن ذُکرتُ عنده فلم یصل علیّ فلم یُغفر له فأبعده الله»: ثواب الأعمال ص 65، فضائل الأشهر الثلاثة ص 54، بحار الأنوار ج 71 ص 74، ج 86 ص 261. عن رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم): «ومن أدرک أبویه أو أحدهما فلم یبرّهما فمات فدخل الجنّة فأبعده الله...»: مجمع الزاوئد ج 8 ص 139، کنز العمّال ج 16 ص 42، الدرّ المنثور ج 1 ص 185، مسند أبی یعلی ج 10 ص 328.

ص:26

آسمانوں پر کیا ہورہاہے؟

کیا اتفاق کرتے ہیں کہ مل کر جنت کی سیر کریں؟

جنت خدا کے نیک بندوں کی جگہ ہے جو کوئی اس میں گھر بنائے تو ہر قسم کی پریشانی و تکلیف سے جان چھوٹ جاتی ہے اور کامیابی ،خوشی و مسرت کے علاوہ اس کا کوئی منتظر نہیں۔

جنت زندگی و سلامتی کا گھر ہے وہاں پرکوئی پریشانی نہیں، مومن وہاں جو بھی خواہش کرے گا پوری ہوگی۔

کیا جانتے ہیں کہ بہشت میں بھی مختلف درجات ہیں جو کوئی جس مقام کا ہوگا وہی پر اس کا گھر ہوگا ۔اور وہیں پر اپنی زندگی کو جاری رکھے گا۔

کیا جانتے ہیں کہ بہشت کا اعلیٰ ترین درجہ کہاں ہے؟ جی ہاں، ’’علیین‘‘ جنت کا اعلیٰ ترین مقام ہے حضرت رسول اکرم صلی الله علیه و آله و سلم اور حضرت امام علی علیہ السلام کا گھر وہاں ہے(1)

کیا آپ کے دل میں رسول خدا صلی الله علیه و آله و سلم اور ان کے اہل بیت علیه السلام کی محبت نہیں ہے؟کیا آپ علیین میں جانا چاہتے ہیںٖ؟


1- . رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم): «أبشر یا علیّ ، فإنّ منزلک فی الجنّة مواجه منزلی ، وأنت معی فی الرفیق الأعلی فی أعلی علّیین...»: الخصال ص 577،بحار الأنوار ج 31 ص 441.

ص:27

سوچ لیں ،جنت کا اعلیٰ ترین مقام وہ جگہ ہے جہاں پر خدا کے قریبی رہتے ہیں، وہاں جگہ چاہتے ہیں!

کیا اس سے بڑھ کر کوئی سعادت تصور کرسکتے ہیں؟

اے میرے دوست ! "علیین" میں تیرے گھر کا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ دنیا میں تونے اعلی ترین معنوی مقام حاصل کیا دنیا کے تمام امتحانوں میں اعلی درجے میں کامیابی حاصل کی اس لیے خدا نے آپ کو جنت میں بہترین درجہ دیاہے۔

اب سمجھا ہوں کہ آپ کے دل میں اس کا شوق پیداہوگیاہے ،تو اب اس جگہ تک پہنچنے کے راستہ کو تلاش کرتے ہیں۔

یقیناً آپ نے ابو حمزہ ثمالی کا نام تو سنا ہوگا؟

ابو حمزہ ثمالی حضرت امام سجاد علیه السلام اور حضرت اما م محمد باقر علیه السلام کے بہترین ساتھیوں میں سے ہیں یہ وہی ہیں کہ جنہوں نے حضرت امام سجاد علیه السلام سے رمضان المبارک کی سحر میں پڑھی جانے والی دعا کوبیان کیا ہے اس لیے اس دعاکو دعائےابو حمزہ ثمالی کہتے ہیں۔

ص:28

اب میں چاہتاہوں کہ آپ کو ابو حمزہ ثمالی نے جو حدیث حضرت اما م محمد باقر علیه السلام سے بیان کی ہے خلاصہ بیان کروں: "جو کوئی اپنے والدین کے ساتھ محبت سے پیش آئے اور ان سے نیکی و احترام کرے ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرے۔خدا اسے روز قیامت علیین میں جگہ دے گا اور وہاں پر بھی اس کا مقام اعلی ترین ہوگا۔(1)

بے شک اگرچاہتے ہیں کہ جنت میں اعلیٰ ترین مقام پائیں تو اٹھیں ابھی سے منصوبہ بندی کریں کہ کس اہتمام سے اپنے ماں باپ کا احترام کریں۔

ماں باپ وہ سرمایہ ہیں کہ اگر ان سے خوب استفادہ کریں تو دنیا و آخرت کی منازل کو طے کیا جاسکتاہے اور آخرت میں تو خدا کے عزیز ترین بندوں کے ساتھ مقام ملتاہے۔

میں جانتا ہوں کہ آپ اس کام کو صمیم قلب سے کرنا چاہتے ہیں اپنے والدین کے ہاتھ چومیں اور خدا کا شکر بجا لائیں کہ اس نے آپ کو یہ سعادت دی ہے کہ ان کی خدمت کرکے ان کا احترام کرکے خدا اور اس کے نیک بندوں کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔


1- . الإمام الباقر(علیه السلام): «أربع من کنّ فیه من المؤمنین أسکنه الله فی أعلی علّیین فی غرف فوق غرف، فی محلّ الشرف کلّ الشرف: من آوی الیتیم ونظر له فکان له أباً، ومن رحم الضعیف وأعانه وکفاه ، ومن أنفق علی والدیه ورفق بهما وبرّهما ولم یحزنهما، ومن لم یخرق بمملوکه وأعانه علی ما یکلفه، ولم یستسعه فیما لم یطق»: الأمالی للمفید ص 167، بحار الأنوار ج 66 ص 380، ج 71 ص 72 و 140.

ص:29

والدین کوایک نظر دیکھنا ،حج کاثواب

دور ترین راستوں کو طے کرتا ہوا،جنگل و بیاباں کو عبور کرتاہوا واجب کو ادا کرنے کے لیے نکل پڑا ہوں۔

راستے میں ریت کے طوفان بھی، برداشت کیے لیکن خود کو روز عرفہ مکہ نہ پہنچا سکا، اتنا طویل راستہ طے کیا تھا ،لیکن واجب حج کو انجام نہ دے سکا اور اس سعادت سے محرومی پہ بہت افسوس ہورہا تھا۔

میرے ایک دوست نے تجویز دی کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کی خدمت میں جاؤں اور اس کے متعلق بات کروں۔

اب میں چاہتاہوں کہ آنحضرت صلی الله علیه و آله و سلم کی خدمت میں جاؤں بہتر ہے کہ آپ بھی میرے ساتھ آئیں۔

میں پیغمبر صلی الله علیه و آله و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: یارسول اللہ صلی الله علیه و آله و سلم میں مکہ کی جانب حج کرنے کے لیے نکلا، لیکن وقت پر مکہ نہ پہنچ سکا۔ میرا دل بہت چاہتا تھا کہ حج کا ثواب حاصل کروں،میرے پاس دولت و ثروت کی کمی نہیں ہے ، مجھے بتائیں کہ کس کام پہ کتنی دولت خرچ کروں کہ خدا مجھے حج

ص:30

کے ثواب کو عطا کرے ۔حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم سرکو جھکا کر سوچنے لگے۔

پھرمیری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اس بڑے پہاڑ کو دیکھتےہو! اگر اس کے برابر سونا چاندی بھی راہ خدا میں خرچ کردو تو جوثواب ایک حاجی کو ملتا ہے نہیں پاسکتے۔حاجی جب اپنے گھر سے نکلتاہے تو خدا ہر قدم پر اس کو دس نیکیاں عطا کرتاہے جب خانہ کعبہ کا طواف کرتاہے ،تو خدا اس کے سارے گناہ معاف کر دیتاہے۔(1)

اے میرے دوست! اب آپ کو علم ہوگیاہے ،کہ حج کا ثواب کتنا ہے۔ کیااب آپ آمادہ ہیں آنحضرت سےایک واقعہ بیان کروں؟

ایک دن حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور والدین کے احترام سے متعلق بات درمیان میں آگئی۔

تو آنحضرت اکرم صلی الله علیه و آله و سلم نے یوں فرمایا: جب اولاد اپنے والدین(ماں باپ) کا احترام کریں، ان کے ساتھ نیکی کریں انہیں محبت بھری نگاہوں سے دیکھیں ،خدا ہر نظر پر انہیں ایک حج کا ثواب دیتاہے۔


1- . الإمام الصادق(علیه السلام): «إنّ رسول الله لقیه أعرابی فقال له: یا رسول الله إنّی خرجت أُرید الحجّ ففاتنی ، وأنا رجل معیل ، فمرنی أن أصنع فی مالی ما أبلغه به مثل أجر الحاجّ. قال: فالتفت إلیه رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم) فقال له: انظر إلی أبی قبیس ، فلو أنّ أبا قبیس لک ذهبة حمراء أنفقته فی سبیل الله ، ما بلغت به ما یبلغ الحاجّ، ثمّ قال: إنّ الحاجّ إذا أخذ فی جهازه لم یرفع شیئاً ولم یضعه إلاّ کتب الله له عشر حسنات ومحی عنه عشر سیّئات ورفع له عشر درجات ، فإذا رکب بعیره لم یرفع خفّاً ولم یضعه إلاّ کتب الله له مثل ذلک ، فإذا طاف بالبیت خرج من ذنوبه...»: تهذیب الأحکام ج 5 ص 20، الحدائق الناظرة ج 14 ص 16، جواهر الکلام ج 17 ص 215، وسائل الشیعة ج 11 ص 113.

ص:31

اصحاب پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کو یہ سن کرسخت تعجب ہوا، آخرایسا کیسے ممکن ہے ؟ لیکن یہ بات رسول خدا کی ہے وہ اپنی طرف سے بات نہیں کررہے اور نہ ہی غلطی کرسکتے ہیں۔سب کے سب چکر ا گئے، سب نے ہم آواز ہوکر کہا: یارسول اللہ صلی الله علیه و آله و سلم اگر ایک بچہ دن میں سو مرتبہ اپنے والدین کو دیکھے ،تو کیا خدا اسے سوحج کا ثواب دے گا؟

آپ جانتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم نے ایک کلمہ میں جواب دیا:

جی ہاں(1)

ہمیں تعجب اس بات پر ہے کہ نہیں جانتے کہ خدا کا لطف و کرم کس حد تک ہے۔

اے میرے دوست ! حج کا اتنا ثواب ہے کہ لاکھوں روپے خدا کی راہ میں خرچ کریں تو حاجی جتنا ثواب نہیں ملتا، لیکن والدین کے چہرے کی طرف محبت بھری نظر ،خدا کی نظر میں لاکھوں روپے خرچ کرنے سے زیادہ ہے۔


1- . ابن عبّاس قال: «قال رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم): ما ولد بارّ نظر إلی أبویه برحمة ، إلاّ کان له بکلّ نظرة حجّة مبرورة، فقالوا: یا رسول الله وإن نظر فی کلّ یوم مئة نظرة؟ قال: نعم، الله أکبر وأطیب»: الأمالی للطوسی ص 307، بحار الأنوار ج 71 ص 73.

ص:32

میرے عزیزٖ! خدا کا کوئی کام حکمت کے بغیر نہیں ہوتا ،وہ والدین کی طرف محبت بھری نظر سے دیکھنے کو،راہ خدا میں لاکھوں روپے خرچ کرنے سے زیادہ پسند کرتاہے۔

اسی لیے کوشش کریں کہ ماں باپ کی طرف ہمیشہ احترام کی نظروں سے دیکھیں ،ایسا نہ ہو کہ آپ بھی اس بندوں کی طرح ہوں کہ جو ہر سال لاکھوں روپے کا رخیر میں خرچ کرتے ہیں ،لیکن اپنے والدین کو اولڈ ہوم میں بھیج دیتے ہیں اور سالوں سال کبھی ان کی ملاقات کو نہیں جاتے۔

خدا نہیں چاہتا ،کہ اپنے والدین کو بھول جائیں ،اس لیے ایک نگاہ پر ایک حج کا ثواب دیتاہے۔

میں ہرگز بھلا نہیں سکتا ،میں نے میدان عرفات میں ایک شخص کو دیکھا جو بہت زیادہ گریہ کر رہا تھا اورخدا خدا کہہ کے رو رہا تھا، سب لوگ اس کی اس حالت پر رشک کرنے لگے، یہ واقعہ گزر گیا انہی ایام میں اس شخص کی زوجہ سے بھی ملاقات ہوئی اس نے بتایا کہ پانچ سال ہو گئے ہیں موصوف اپنے

ص:33

ماں باپ سے ملنے نہیں گئے ،بلکہ ان پر غضبناک ہوتے ہیں ،ان سے بول چال ہی نہیں رکھتے۔

اس نے مجھ سے درخواست کی ،کہ میں اس کے شوہر سے بات کروں اور ان کو راضی کروں ،کہ واپسی پر اپنے والدین سے ملنے جائیں اور انہیں راضی کریں۔

میں نے اس حاجی صاحب سے کہا: آپ سفر حج پر آئے ہیں لیکن پانچ سال کتنی بڑی فضیلت سے محروم رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر اپنے خدا کو ناراض کیا۔

اے لوگو! جو حج پر جانا چاہتے ہیں، خانہ خدا کی زیارت کرنا چاہتے ہیں ،حج تو گھر میں ہے، آئیں اور ایک مرتبہ اپنے ماں باپ کی طرف عشق کی نگاہ کریں، تو اس طرح کمال کی منازل طے کرسکتے ہیں۔

دوستو! خدا کی قسم ہم عرفان و معنویت کو سمجھ ہی نہیں سکے، نہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ کس طرح خدا کے نزدیک ہوں۔

ص:34

اگرہم ان مطالب کو جانتے، تو ہمارے گھروں کا ماحول کتنا پاک و پاکیزہ ہوتا ۔تو اس قدر بوڑھے والدین کو اولڈہوم چھوڑ کر نہ آتے، جہاں وہ تنہائی کی مصیبت کو برداشت کریں؟

میں نے کئی افراد کو دیکھاہے ،کہ محافل و مجالس میں آتے ہیں ،نالہ وگریہ کرتے ہیں لیکن اپنے والدین کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے ۔

کتنے ہی جوان ہیں کہ جو عرفان کے نام پر اپنے گھروں سے دور ہیں ،والدین کے دل کو توڑتے ہیں ،اپنے طور پر خدا سے ملے ہوئے ہیں ،ہرگز یہ عرفان نہیں بلکہ سراب ہے۔

ص:35

ایک رات میں چودہ صدیوں کی عبادت کرنا

مسجد میں بیٹھے ہیں ایک نوجوان پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کے پاس آتاہے ،سلام و دعا کے بعد کہتاہے :یا رسول اللہ مجھے جہاد پر جانے کا بہت شوق ہے کہ راہ خدا میں دشمنان اسلام سے جنگ کروں۔

پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله و سلم فرماتے ہیں:جہاد پر جاؤ اور جان لو کہ اگرشہادت نصیب ہوئی ،توبہت بڑی سعادت کو پا لیا اور اگرغازی بن گئے ،تو تمہارے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے، جیسے ابھی ماں نے جنم دیا ہو۔

جب اس نوجوان نے رسول خدا صلی الله علیه و آله و سلمکی یہ بات سنی ،تو سوچ میں ڈوب گیاوہ چونکہ جہاد و شہادت کا عاشق تھا، اس کے اشتیاق میں اور زیادہ اضافہ ہوگیا ،لیکن میں نہیں جانتا کہ وہ اس قدر بے قرار کیوں ہے؟ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ کسی دوراہے پر آگیا ہو۔

آئیں اس نوجوان کے پاس جاتے ہیں، اس سے بات کرتے ہیں شاید اس کی مدد کرسکیں۔

۔۔۔اے نوجوان! اس طرح سوچ میں کیوں گم ہو؟

ص:36

۔۔۔میں جہاد کا عاشق ہوں اور چاہتا ہوں جلد از جلد اپنے آپ کولشکر اسلا م تک پہنچاکراپنی جان کو اسلام پرقربان کروں۔

۔۔۔تو پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے، اٹھو اور چلے جاؤ۔

اے مصنف صاحب!میں اتنی جلدی فیصلہ نہیں کرسکتا!اس لیے کہ میرے ماں باپ بوڑھے ہو گئے ہیں اور میرے سوا ان کا کوئی نہیں ہے ،اور میں بھی چاہتاہوں کہ ان کے پاس رہوں ،کیونکہ وہ مجھ سے ہی مانوس ہیں۔

۔۔۔پس تمہاری پریشانی یہ ہے ،کہ تمہارےماں باپ تنہا ہیں اور تم بھی چاہتے ہو کہ تم ان کے پاس رہو ۔

اچھا تو دوست اس معاملہ پہ رسول خدا سے مشورہ کرلیتے ہیں۔

وہ جوان ایک مرتبہ پھر حضور اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کی خدمت میں گیا اورکہتاہے: یارسول اللہ میں جہاد پر جاناچاہتاہوں ،لیکن میرے والدین بوڑھے ہیں۔ میرے جانے سے انہیں تکلیف ہوگی،کیونکہ وہ مجھ سے مانوس ہیں ۔

ص:37

حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم نے اس کی بات کو سنا اور فرمایا: اے جوان !تم اپنے والدین کے پاس ہی رہو اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، ایک رات میں اپنے ماں باپ کے ساتھ رہنااور ان سے محبت کرنا، راہ خدا میں ایک سال جہاد کرنے سے بہتر ہے۔(1)

اے میرے دوست ! کیا تسلیم کرتے ہیں کہ ہم حقیقی دین سے کتنے دور ہو گے ہیں؟

میں بہت سے نوجوانوں کو جانتاہوں جن کے دل میں شہادت کی حسرت ہے، لیکن والدین کے ساتھ انس و محبت دل میں نہیں ہے۔

کتنے ہی ایسے افراد ہیں جو اہل نماز اور بندگی میں خدا کو خوش کرتے ہیں۔لیکن اپنے والدین کو اولڈ ہوم یا گھر میں کسی نا مناسب جگہ پررہائش دی ہوتی ہے۔جہاں پر وہ تنہائی میں رہتے ہیں۔

یہ وہ اسلام ہے ،جسےہم نے خود اپنے لیے بنا لیاہے۔

کتنے ہی ایسے افراد ہیں ،جو سال میں ایک مرتبہ ایران،عراق کی زیارت پر جاتے ہیں لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں، ہسپتال ڈسپنسریاں یتیم خانے


1- . الإمام الصادق(علیه السلام): «أتی رجل رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم) فقال: یا رسول الله ، إنّی راغب فی الجهاد نشیط، قال: فقال له النبیّ(صلی الله علیه وآله وسلم) : فجاهد فی سبیل الله ، فإنّک إن تُقتل تکن حیّاً عند الله تُرزق، وإن تمت فقد وقع أجرک علی الله، وإن رجعت رجعت من الذنوب کما وُلدت، قال: یا رسول الله ، إنّ لی والدین کبیرین یزعمان أنّهما یأنسان بی ویکرهان خروجی؟ ! فقال رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم) : فقرّ مع والدیک ، فوالذی نفسی بیده لأنسهما بک یوماً ولیلة خیر من جهاد سنة»: الکافی ج 2 ص 160، وسائل الشیعة ج 15 ص 20، بحار الأنوار ج 71 ص 52.

ص:38

چلاتے ہیں،دعائے کمیل و دعائے ندبہ کے دوران آنسو بہاتے ہیں ،امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی جدائی میں آنسوبہاتے ہیں ،تاکہ ان کی رکاب میں جہاد کر سکیں۔

لیکن اپنے بوڑھے والدین کو اولڈہوم چھوڑ کر آتے ہیں اور بہت کمال کر لیں تو ایک مہینہ کے بعد ملنے چلے جاتے ہیں۔

بعض اوقات اس نتیجہ پر پہنچتا ہوں ،کہ دین داری میں ہم بہت غلط راستہ پر جارہے ہیں۔

یہ جو ہم امام زمانہ علیہ السلام کی معیت میں جہاد کرنا چاہتے ہیں ،نہیں جانتے کہ اگر اپنے والدین کو اپنے گھروں میں لے آئیں ،ان کی عزت و تکریم کریں۔ایک رات میں ایک سال جہاد کا ثواب حاصل کر سکتے ہیں۔

بالآخر امام زمانہ علیہ السلام ہم سے کیا چاہتے ہیں؟

کیا ان کا دین اپنے جد کے دین سے جدا ہے؟

میرے عزیز دوست: اگروالدین گھر میں ہیں تو ابھی اٹھیں ان کی خدمت کریں، بچے دیکھیں کہ والدین کی خدمت کس طرح ہوتی ہے۔

ص:39

جب تک ماں باپ زندہ ہیں، اپنے آپ کو اس ثواب سے محروم نہ کریں! جب رسالتماب فرماتے ہیں:" کہ ایک رات ماں باپ کے پاس ہونا ایک سال کے جہاد سے افضل ہے" تو مجھے اس بات پر غور کرنا چاہیے۔

کیا میں آپ سے درخواست کرسکتاہوں؟ رسول خدا صلی الله علیه و آله و سلم کی اس حدیث کوایک خوبصورت کاغذ پر تحریر کرکے فریم کرالیں اور اپنے گھر میں نصب کریں۔

جب بھی اس پر نظر پڑے گی ،خوبخود اس پیغام پر توجہ پڑتی رہے گی۔

ایک نکتہ میرے ذہن سے نکل نہ جائے ،اس کی طرف اشارہ کرتاہوں۔

پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم راہ خدا میں ایک دن جہاد کو چالیس سال کی عبادت سے افضل بیان کرتے ہیں(1)

اب حساب کرتاہوں کہ والدین کے پاس ایک رات بسر کرنا، لاکھوں سال کی عبادت کا ثواب رکھتاہے۔

خدا ہمیں اسلامی تعلیمات کو ان کی روح کے مطابق سمجھنے اور اخلاص کے ساتھ ان پر عمل کرنے کی توفیق دے۔


1- . رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم): «إنّ صبر المسلم فی بعض مواطن الجهاد یوماً واحداً ، خیراً له من عبادة أربعین سنة...» مستدرک الوسائل ج 11 ص 21، جامع أحادیث الشیعة ج 713، شرح ابن أبی الحدید ج 10 ص 39.

ص:40

والدین کے ساتھ سختی سے بولنا؟

میرا نام ابراہیم ہے اور کوفہ کا رہنے والا ہوں۔

ایک عرصہ سے حضرت امام جعفر صادق علیه السلام سے ملاقات کا خواہش مند تھا۔ کوئی مناسب موقع دیکھ رہا تھا کہ مدینہ جاؤں اس طرح قبر مطہر رسول خدا صلی الله علیه و آله و سلم کی زیارت بھی ہو سکے گی، اور اپنے امام علیه السلام سے ملاقات بھی ہوجائے گی۔

میں اس سفر کی تیاری کررہا تھا میری ماں کو بھی پتا چلا ،کہ میں دور دراز کے سفر کی تیاری کررہا ہوں۔

۔۔اے میرے بیٹے سفر پر جارہے ہو؟

۔۔جی ہاں:

۔۔بیٹا! کہاں جارہے ہو؟

۔۔مدینہ:

ص:41

جونہی ماں نے مدینہ کا نام سنا، تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔کئی سالوں سے اس کے دل میں بھی مدینہ جانے کی آرزو تھی، میں نے فیصلہ کیا کہ ماں کو بھی اپنے ساتھ لے جاتاہوں۔

ایک طویل سفر کے بعد مدینہ پہنچا رہائش کے لیے ایک مناسب گھر فراہم کیا۔

ماں کے ساتھ قبر رسول صلی الله علیه و آله و سلم کی زیارت کی، پھر حضرت امام جعفر صادق علیه السلام کے گھر کی طرف چلے۔

آپ نہیں جانتے، کہ امام مہربان کی زیارت کا کتنا لطف ہےٖ!

امام کا چھوٹا سا گھر پوری دنیا سے زیادہ خوبصورت دکھائی دے رہا تھا۔

تمام خوبیاں اس گھر میں جمع تھیں۔

ایک رات جب امام کے گھر تھا بات ذرا لمبی ہوگئی باتوں میں اس طرح محو رہا کہ وقت گزرنے کا احساس بھی نہیں ہوا۔

سمجھ گیا کہ اتنی دیر ہوگئی ہے، تو میری ماں سخت پرشان ہوگی ،اس لیے امام سے خدا حافظ کی اور گھرکی طرف چل پڑا۔

ص:42

جب گھر پہنچا تومیری ماں کافی پریشان تھی۔

اس نے مجھ سے کہا:کیا نہیں جانتے اس شہر میں تیرے سوا میرا کوئی نہیں؟کیوں اتنی دیر کردی؟ میرا دل پریشان ہورہا تھا کہ کہیں حکومتی اہلکاروں نے تو گرفتار نہیں کر لیا۔

نہیں جانتا کہ مجھے کیا ہوا اپنی جگہ سے اٹھا اور غصے سے بلند آواز میں ماں سے بات کی جس سے ماں ناراض ہوگئی۔

جب میرا غصہ ٹھنڈا ہوا تو سوچا کہ کتنا غلط کام مجھ سے سرزد ہوا؟!

ماں برحق تھی ،اسے پریشان ہونا چاہیے تھا۔بنی عباس کی حکومت کے اہلکار امام علیہ السلام کے گھر کی نگرانی کرتے تھے۔

بحرحال رات کو سو گیا جب صبح نماز کے بعد امام علیہ السلام کے گھر کی طرف چلا ۔

راستہ میں یاد آیا کہ کاش اپنی ماں سے معافی مانگ لی ہوتی ،لیکن اپنے آپ سے کہا ،چلو اب امام علیہ السلام کے پاس چلتا ہوں، وہاں سے کسب فیض کرنے کے بعد گھر جاکر ماں کو راضی کر لوں گا۔

ص:43

جب امام کے گھر داخل ہوا سلام کیا ۔

امام علیہ السلام نے جواب دیا،پھر مجھے مخاطب کرتے ہوئے امام علیہ السلام نے فرمایا: اے ابراہیم! کل رات اپنی ماں سے اونچی آواز میں کیوں بات کی تھی؟ کیوں اس کا دل توڑا؟ کیا بھول گئے ہو اس نے تمہیں پالنے اور بڑا کرنے میں کتنی تکالیف کو برداشت کیا؟

مجھے بڑا تعجب ہوا، ماں کے ساتھ تلخ کلامی کا ہمارے سوا کسی کو علم نہ تھا ،لیکن اب امام علیہ السلام مجھ سے اس کے بارے میں پوچھ رہے ہیں بے شک ، وہ خدا کے نمائندے ہیں ،جو اس بارے میں مجھ سے بات کررہے ہیں ۔

شرمندگی سے سر جھکائے جارہا تھا۔

امام نے اپنی بات کو جاری رکھا اور فرمایا:کیا اس نے تمہیں دودھ نہیں پلایا،اپنی گود میں نہیں اٹھایا؟

ص:44

میں شرمندگی کے باعث امام علیہ السلام کاسامنا نہیں کر سکتا تھا ،سرجھکائے ہوئے کہا :جی ہاں اس نے میرے لیے بہت زیادہ تکالیف برداشت کیں ہیں۔

میرے چہرے کا رنگ اڑ چکا تھاان کے سامنے بھی شرمندہ تھا۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:کوشش کرو کہ اس کے ساتھ بلند آواز میں بات نہ کرو اسے ناراض نہ کرو۔(1)

اس دن کے بعد فیصلہ کیا کہ آج کے بعد ہرگز اس کو ناراض نہ کروں گا بلکہ اس کی عزت و احترام کا خیال رکھوں گا۔


1- . «خرجت من عند أبی عبد الله(علیه السلام) لیلة ممسیاً ، فأتیت منزلی بالمدینة ، وکانت أُمّی معی، فوقع بینی وبینها کلام، فأغلظت لها، فلمّا أن کان من الغد صلّیت الغداة وأتیت أبا عبد الله7 ، فلمّا دخلت علیه فقال لی مبتدءاً: یا أبا مهزم ، مالک ولخالدة أغلظت فی کلامها البارحة؟ أما علمت أنّ بطنها منزل قد سکنته، وأنّ حجرها مهد قد غمزته، وثدیها وعاء قد شربته؟ قال: قلت: بلی ، قال: فلا تغلظ لها»: بصائر الدرجات ص 263، مستدرک الوسائل ج 15 ص 190، الخرائج والجرائح ج 2 ص 729، مدینة المعاجز ج 5 ص 314.

ص:45

گائے کی کھال سونے سے بھر گئی

میں ایک جوان ہوں خرید و فروخت میرا کاروبار ہے

البتہ میرا کاروبار زیادہ وسیع نہیں ہے۔

کچھ اجناس تھو ک میں خرید کر پرچون میں بیچ دیتاہوں اس طریقے سے میری گزر بسر ہورہی ہے۔

آج جب بازار سے گزر رہا تھا ایک اچھا گاہک مل گیا۔

وہ جو چیز مجھ سے خریدنا چاہتا تھا میرے پاس بھی وہ چیز موجود تھی ۔

قیمت بھی طے ہوگئی۔معاملہ بھی طے پاگیا۔

بہت خوشی ہورہی تھی، کہ اس طرح مجھے اچھا خاصا منافع ہونے والا تھا ۔

طے پایا ،کہ گاہک کوفوراً جنس تحویل دی جائے

میں بھی اپنے گھر میں موجود گودام میں آیا۔

گودام کی چابی ایک خاص جگہ پر رکھی ہوئی تھی جب کمرے میں داخل ہوا تو کیا دیکھا میرے والد صاحب اسی جگہ سو رہے ہیں ،جہاں چابی رکھی ہوئی تھی۔

ص:46

میں نے سوچا ، والد صاحب کو جگا دیا جائے یا منافع بخش معاملہ سے صر ف نظر کی جائے؟ گاہک کو بھی جلدی تھی۔

میں کمرے سے باہر آیا اور اسے کہا کہ صبر کرو میرے والد صاحب جاگ جائیں اس نے کچھ دیر انتظار کیا اور میں بھی کئی مرتبہ کمرے میں آیا۔لیکن میرے والد گہری نیند سورہے تھے۔وہ ساری رات کھیتوں کو پانی لگاتے رہے تھے۔

میں نے گاہک سے کہا آپ کی چیز تیار ہے، لیکن کچھ دیر صبر کریں تاکہ میرے ولد صاحب جاگ جائیں۔ اس نے کہا:اے جوان!آپ کس قدر کم عقل ہیں !جب آپ کے والد کو پتہ چلے گا کہ تجھے بہت زیادہ پیسے مل رہے ہیں، تو وہ خوش ہو جائے گا کہ تمہیں پیسے مل رہے ہیں ،لیکن میں نہیں مان رہا تھا اس لیے کہ مجھے اپنے والد کی آرام و آسائش تمام دنیا کی دولت سے زیادہ عزیزتھی۔

بہرحال گاہک چلا گیامعاملہ منسوخ ہو گیا ۔ایک گھنٹہ کے بعد والد صاحب بیدار ہوئے ،

ص:47

جب انہیں اس بات کا پتا چلا ، مجھے بلایا اور میرا شکریہ ادا کیا۔

پھر یوں کہا: اے میرے بیٹے! میرے پاس دنیا کا زیادہ مال نہیں ہے لیکن ایک گائے کا بچھڑا پیدا ہوا ہے، تجھے بخش دیتاہوں۔

میں نے والد صاحب کا شکریہ ادا کیااور ان کے چہرے کا بوسہ لیا۔شاید آپ تعجب کریں ، وہ رقم جو اس معاملہ سے زیادہ آنا تھی وہ اس بچھڑے سے کئی گنا زیادہ تھی ۔

مجھے والد صاحب کی بات پر تعجب ہوا لیکن میں نے کچھ نہ کہا کہ کہیں ان کا دل ہی نہ ٹوٹ جائے، کیونکہ والد صاحب نہیں جانتے تھے کہ انہیں نہ جگا کر میں نے کتنا بڑا نقصان کیا ہے۔

میں سوچ رہا تھا کہ شاید میرے والد کو علم نہیں ہے، کہ میں نے ان کو نہ جگا کر کتنا نقصان برداشت کیاہے

لیکن چند سالوں کے بعد پتا چلا کہ و ہ جانتے تھے کہ میں نے ان کی خاطر کتنا نقصان برداشت کیا ہے۔

ص:48

پھر ایک دن میرے والد کا انتقال ہوگیا ۔اور وہی بچھڑا میرے لیے کروڑوں کا ہوگیا اب آپ بھی تعجب کریں گے یہ کیسے ہوگیا؟

جی ہاں ،میرے والد صاحب کی دعا معجزہ بن گئی، جب میرے والد نے مجھے یہ گائے کا بچہ دیا تھا اس وقت آسمان کی طرف دیکھ کر دعا کی تھی کہ اس بچھڑے کو میرے بچے کے لیے باعث خیر و برکت قرار دے اور وہ دعا میرے حق میں قبول ہوگئی۔

کیا آپ اس واقعہ کو سننا چاہتے ہیں؟

قوم بنی اسرائیل میں دو چچا زاد بھائیوں کا کسی مسئلہ پر اختلاف ہو گیا اور اس کینہ کی وجہ سے ان میں دشمنی پیدا ہوگئی۔

ایک رات ان میں سے ایک دوسرے کے گھر آیا،اسے تنہا پاکر حملہ کرکے اسے قتل کردیااور جنازہ ایک دوسرے قبیلہ کے محلہ میں رکھ دیا اور فرار ہوگیا۔دوسرے دن سارے شہر میں خبر پھیل گئی کہ ایک بنی اسرائیل کے جوان کو دوسرے قبیلہ نے قتل کردیا ہے۔

ص:49

وہی قاتل، قبیلہ کے کچھ لوگوں کواکٹھا کرکے جس قبیلہ کے محلہ میں جنازہ رکھا تھا خون کا بدلہ خون لینے پہنچ گیا۔ کہ ہمیں قاتل تلاش کرکے دو ہم نے قصاص لینی ہے اچھا کہ آپ کو بتاؤں کہ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے اور ان میں اختلافات پیش آتے رہتے تھے۔

حالات کافی خراب ہوگئے آپس میں شدید لڑائی کا خطرہ پیداہوگیا۔بنی اسرائیل کے کچھ بزرگ جمع ہوئے اور حضرت موسی علیہ السلام کی خدمت میں گئے اور ان سے مدد طلب کی کہ خدا سے چاہیں کہ قاتل بتا دیں تاکہ ایک جنگ سے بچا جاسکے۔

حضرت موسی علیہ السلام نے خدا سے بات کی۔

خداکی جانب سے وحی آئی ،کہ ایک گائے کو ذبح کریں ،تو قاتل کا پتا چل جائے گا۔بزرگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا اے موسیٰ جنگ سرپرمنڈلا رہی ہے اورآپ ہمیں گائے ذبح کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں؟

حضرت موسی علیہ السلام ٰ نے فرمایا : یہ خدا کا حکم ہے۔

ص:50

ہر طرف سے خبریں آنے لگیں کہ جوانوں کا خون جوش مار رہا ہے تلواریں ہاتھوں میں ہیں اور ایک دوسرے کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔

بنی اسرائیل کے بزرگوں نے کہا :اے موسیٰ خدا سے اس گائے کی خصوصیات پوچھو تاکہ اس کو معین کیا جاسکے۔

حضرت موسی علیہ السلام ٰ نے خدا کی طرف سے ان خصوصیات کو بتایا ،کہ وہ گائے بوڑھی نہ ہو رنگ وغیرہ کا بھی بتایا۔

اب لوگ اس گائے کو خریدنے کے لیے چل پڑے۔

مجھے خود بھی پتا نہ تھا، کہ وہ گائے جو خدا نے بیان کی تھی وہ صرف میرے پاس ہی تھی کہ جو میرے والد نے مجھے دی تھی۔اب وہ کافی صحت مند اوربڑی ہوگئی تھی۔

لوگوں کو بھی گائے کی ان خصوصیات کے راز کا علم نہ تھا۔بہت سے لوگ میرے گھر آئے اور کہا کہ ہم اس گائے کوخریدنا چاہتے ہیں مجھے واقعہ کا علم بھی نہ تھا اور میں گائے بیچنا بھی نہیں چاہتا تھا چونکہ یہ میرے والد کا تحفہ تھا۔

ص:51

میں سوچ رہا تھا، کہ مجھے گائے بیچنے کی ضرورت نہیں ہے، تو کیوں بیچوں ۔انہوں نے اس کی قیمت کو بڑھا دیا۔

میں نے کہا نہیں بیچوں گا۔

وہ قیمت کو کئی گناہ بڑھا چکے لیکن میں بیچنے کے لیے راضی ہو ہی نہیں رہا تھا۔وہ مایوس ہوکر دوبارہ حضرت موسی علیہ السلام ٰ کے پاس گئے اور کہا: اے موسیٰ کیا ہوسکتاہے کہ خدا کسی دوسری گائے کا بتا دے

حضرت موسی علیہ السلام ٰ نے کہا :نہیں صرف وہی گائے ہی ذبج کی جائے۔

وہ دوبارہ واپس آئے اور کہا کہ ہم اس گائے کو لاکھوں کی بجائے کروڑوں میں خریدتے ہیں کیا پھر ہمیں بیچ دو گے؟

میں نے کہا کہ میں اس گائے کو بیچنا ہی نہیں چاہتا میں نے سوچا کہ انہیں ایک ایسی بات بتاؤں جس سے یہ میری جان چھوڑ دیں میں نے شرط رکھی کہ اس گائے کو اس شرط پر دیتاہوں کہ اس گائے کی کھال کو سونے جواہرات سے بھر کر واپس کریں۔

ص:52

انہوں نے میری طرف دیکھا اورچلے گئے، مجھے بھی سکون ہوا لیکن ان قبیلوں کے درمیان جنگ کے شعلے بھڑکنے لگے، اور حالات ایسے ہوگئے کہ ڈر تھا کہ کہیں نسل بنی اسرائیل ہی ختم نہ ہوجائے۔

بالآخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ گائے کی کھال کے برابر سونے و جواہرات کو اکٹھا کیا جائے۔جب یہ کر لیا تو میرے دروازے پر آئے۔

مجھے بھی تعجب ہوا ،کہ اتنے مال و جواہرات کے برابر میں یہ گائے خریدنا چاہتے ہیں۔مجھے بھی یقین نہیں ہورہا تھا لیکن چونکہ با ت ہوچکی تھی میں نے گائے کوبیچ دیا۔پھر میں بھی ان کے ساتھ مل کر حضرت موسی علیہ السلام ٰ کے پاس گیا ۔حضرت کے حکم سے اس گائے کو ذبح کیا گیا پھر کچھ دیر کے بعد خدا کے حکم سے مقتول جوان زندہ ہوگیا حضرت موسی علیہ السلام ٰ نے اس جوان سے سوال کیا؟تجھے کس نے قتل کیا ہے؟

اس نے اپنے چچا زاد بھائی کی طرف اشارہ کیا اور اس رات کا واقعہ سنایا ۔ بہرحال جنگ کے بادل چھٹ گئے ،لوگ اپنے گھروں میں چلے گئے اور مجھے مبارکباد دینے لگے کہ کتنے خوش نصیب ہو کہ اتنی دولت مل گئی

ص:53

ہے۔اب میں اتنا دولت مند ہوگیاہوں کہ جس کامیں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔اور یہ میرے والد کی دعا کا نتیجہ تھا۔

اگر آپ زندگی میں خوشحالی اور خوش بختی چاہتے ہیں تو والدین کی خدمت کریں تاکہ وہ آپ کے حق میں دعا کریں۔(1)

اے میرے دوست !میں نہیں جانتا کہ آپ نے کتنی مرتبہ قرآن کریم کی تلاوت کی ہے۔کتنی مرتبہ سورۃ البقرہ کی تلاوت کی ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ اس واقعہ کا ذکر سورۃ البقرہ کی آیت 67تا72 میں آیا ہے۔

میں نہیں جانتا ،کہ آپ کب تک قرآن ثواب کے لیے پڑھیں گے اوراسکے معنی اور پیغامات پرتوجہ نہیں کریں گے۔

خداوند کریم اس گائے کے واقعہ کو بیان کرنے کا ایک مقصد رکھتاہے ۔لیکن صدافسوس ہے کہ مسلمان صرف اس کتاب کا بوسہ لیتے ہیں لیکن اس کے مطالب کو سمجھ کر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔


1- . الإمام الرضا(علیه السلام): «إنّ رجلاً من بنی إسرائیل قتل قرابة له، ثمّ أخذه فطرحه علی طریق أفضل سبط من أسباط بنی إسرائیل، ثمّ جاء یطلب بدمه ، فقالوا لموسی(علیه السلام): إنّ سبط آل فلان قتلوا فلاناً ، فاخبرنا من قتله؟ قال: ائتونی ببقرة، (قَالُواْ أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَکُونَ مِنَ الْجَاهِلِینَ) ، ولو أنّهم عمدوا إلی بقرة أجزأتهم ، ولکن شدّدوا فشدّد الله علیهم، (قَالُواْ ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّن لَّنَا مَا هِیَ قَالَ إِنَّهُ یَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لاَّ فَارِضٌ وَ لاَ بِکْرٌ) یعنی لا صغیرة ولا کبیرة، (عَوَانُ بَیْنَ ذَ لِکَ) ، ولو أنّهم عمدوا إلی بقرة أجزأتهم ، ولکن شدّدوا فشدّد الله علیهم، (قَالُواْ ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّن لَّنَا مَا لَوْنُهَا قَالَ إِنَّهُ یَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَآءُ فَاقِعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِینَ) ، ولو أنّهم عمدوا إلی بقرة لأجزأتهم ، ولکن شدّدوا فشدّد الله علیهم... فطلبوها فوجدوها عند فتیً من بنی إسرائیل ، فقال: لا أبیعها إلاّ بملئ مسکها ذهباً ، فجاؤوا إلی موسی(علیه السلام) فقالوا له ذلک ، فقال: اشتروها ، فاشترَوها وجاؤوا بها ، فأمر بذبحها ، ثمّ أمر أن یضربوا المیّت بذنبها، فلمّا فعلوا ذلک حیی المقتول، وقال: یا رسول الله! إنّ ابن عمّی قتلنی، دون من یدّعی علیه قتلی ، فقال لرسول الله موسی(علیه السلام) بعض أصحابه: إنّ هذه البقرة لها نبأ ، فقال وما هو؟ قال إنّ فتیً من بنی إسرائیل کان بارّاً بأبیه ، وأنّه اشتری تبیعاً فجاء إلی أبیه ، فرأی أنّ الأقالید تحت رأسه، فکره أن یوقظه ، فترک ذلک البیع، فاستیقظ أبوه فأخبره ، فقال أحسنت ، خذ هذه البقرة فهی لک عوضاً لما فاتک ، قال: فقال رسول الله موسی(علیه السلام): انظروا إلی البرّ ما بلغ بأهله»: الأمالی للطوسی ص 300، تفسیر العیّاشی ج 10 ص 46، تفسیر نور الثقلین ج 1 ص 87، بحار الأنوار ج 13 ص 263، ج 71 ص 68.

ص:54

مجھے امید ہے ایک دن ایسا بھی آئے گا ،کہ آپ اس کتاب کو نہ صرف پڑھیں گے، بلکہ غور و فکر کے ساتھ عمل بھی کریں گے۔

ص:55

کیا طولعمر چاہتے ہیں؟

آج کی مشینی زندگی اپنے ساتھ بہت سے خطرات کو لیے ہوئے ہے، اور ہر وقت کوئی نہ کوئی ناخوشگوار خبر سننے کو ملتی رہتی ہے کہ کتنے لوگ حادثات کا شکار ہوگئے ہیں۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ ان ناگہانی آفات اور حادثات کی کیسے روک تھام کی جاسکتی ہے؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس بارے میں حضرت اما م محمد باقر علیه السلام کی حدیث بیان کروں؟

حضرت امام محمد باقر علیه السلام نے فرمایا:والدین کے ساتھ نیکی کرنا، صدقہ دینا(بصورت مخفی) فقر کا خاتمہ،عمر کو طولانی اور ستر قسم کی آفات کو آپ سے دور کرتاہے(1)

ایک اور حدیث میں حضرت امام جعفر صادق علیه السلام نے فرمایا: "اگر چاہتے کہ طولائی زندگی بسر کریں تو اپنے والدین کو خوش رکھیں"(2)


1- . الإمام الصادق(علیه السلام): «البرّ وصدقة السرّ ینفیان الفقر، ویزیدان فی العمر ، ویدفعان عن سبعین میتة سوء»: وسائل الشیعة ج 9 ص 398، بحار الأنوار ج 71 ص 81، ج 93 ص 131.
2- . الإمام الصادق(علیه السلام): «وإن أحببت أن یزید الله فی عمرک فسرّ أبویک، قال: وسمعته یقول: إنّ البرّ یزید فی الرزق...» کتاب الزهد ص 34، وسائل الشیعة ج 18 ص 372، ج 13 ص 118، بحار الأنوار ج 13 ص 81، جامع أحادیث الشیعة ج 18 ص 344. عن حنان بن سدیر ، قال: «کنّا عند أبی عبد الله(علیه السلام) وفینا میسر ، فذکروا صلة القرابة ، فقال أبو عبد الله(صلی الله علیه وآله وسلم): یا میسر قد حضر أجلک غیر مرّة ولا مرّتین، کلّ ذلک یؤخّر الله أجلک، لصلتک قرابتک، وإن کنت ترید أن یزاد فی عمرک فبرّ شیخیک ، یعنی أبویه»: الدعوات ص 126، بحار الأنوار ج 71 ص 84.

ص:56

بے شک، آپ کا اچھا اخلاق و کردار باعث بنے گا، کہ والدین آپ کے حق میں دعا کریں اور خدا بھی والدین جب خوش ہو ں تو ان کی دعا قبول کرتاہے اور اس کی عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔

حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم ایک دن مسجد میں آئے اور اپنے اصحاب سے فرمایا: کل رات میں نے ایک خواب دیکھاہے جسے آپ کو سنانا چاہتاہوں۔

پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم نے فرمایا: میں نے کل رات خواب میں دیکھا کہ میرے ایک صحابی کا وقت آخر ہے اور عزرائیل بھی قبض روح کے لیے آگیاہے اور جونہی وہ روح کو قبض کرنے لگا تو اس صحابی کے والدین کے ساتھ کی گئی نیکی ظاہر ہوئی اور عزرائیل نے اسے چھوڑ دیا۔(1)

جی ہاں، وہ شخص والدین کی عزت کرتا تھا اسی لیے خدا نے اسے طولانی عمر سے نوازا اور یقینی موت سے نجات دی۔

تعجب خیز بات یہ ہے کہ والدین سے کیا گیا اچھا سلوک، جانکنی کی سختیوں کو کم کرنے کا سبب بنتا ہے ۔


1- . رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم): «رأیت بالمنام رجلاً من أُمّتی قد أتاه ملک الموت لقبض روحه، فجاءه برّه بوالدیه فمنعه منه»: الأمالی للصدوق ص 301، مستدرک الوسائل ج 4857، بحار الأنوار ج 71 ص 80.

ص:57

حضرت امام جعفر صادق علیه السلام نے فرمایا: اگر چاہتے ہیں کہ قبض روح کی سختیاں تم سے دور کی جائیں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ پیار و محبت سے پیش آئیں تو اس صورت میں خدا قبض روح کی سختیوں کو بھی دور کرتاہے اور فقروتنگدستی کا بھی خاتمہ ہوتاہے۔(1)

آئیں ہم بھی عہد کریں کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں گے، تاکہ خدا ہمیں بھی بابرکت عمر اور بابرکت رزق سے نوازے اور ہماری زندگی میں بھی خوشحالی آئے۔(آمین)


1- . الإمام الصادق(علیه السلام): «من أحبّ أن یخفّف الله عزّ وجلّ عنه سکرات الموت، فلیکن لقرابته وصولاً، وبوالدیه بارّاً، فإذا کان کذلک، هوّن الله علیه سکرات الموت، ولم یصبه فی حیاته فقر أبداً»: الأمالی للصدوق ص 473، روضه الواعظین ص 367، الأمالی للطوسی ص 432، مشکاة الأنوارص 281، بحار الأنوار ج 71 ص 81.

ص:58

نگاہ تلخ ، قبولی نماز میں رکاوٹ

جب آپ خدا کی بارگاہ میں نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، وہ خدا اس طرح آپ پر اپنی رحمت و برکت نازل کرتاہے اگر کوئی اس کو جان لے تو ہرگز اپنی نماز کو ختم نہ کرے۔(1)

نماز کی اہمیت کے بارے میں, بہت زیادہ بات ہوچکی ہے۔یقیناًسنا ہوگا کہ قیامت کے دن سب سے پہلا سوال نماز سے متعلق ہی ہوگا۔اگر نماز قبول ہوگئی تو دیگر تمام اعمال بھی قبول کیے جائیں گے اور اگر نماز ہی قبول نہ ہوئی تو دیگر نیکیاں بھی ضائع ہو جائیں گی۔(2)

جی ہاں میرے دوست یقیناًآپ جانتے ہیں, وہی نماز قبول ہوتی ہے جس میں احکام نماز کی طرف بھی توجہ کی گئی ہو مثلاً

ہمارا لباس حرام مال سے نہ خریدا گیاہو

وضو بھی ٹھیک طریقے سے انجام دیا گیا ہو...وغیرہ

لیکن میں آج آپ کو قبولی نماز کی ایک ایسی شرط بتانا چاہتاہوں شاید آپ نے اس کے بارے میں زیادہ نہ سنا ہو!


1- . أمیر المؤمنین(علیه السلام): «لو یعلم المصلّی ما یغشاه من جلال الله ، ما سرّه أن یرفع رأسه من سجوده»: الخصال ص 632، مستدرک الوسائل ج 3 ص 89، بحار الأنوار ج 10 ص 111.
2- . أمیر المؤمنین(علیه السلام): «الصلاة عمود الدین ، وهی أوّل ما ینظر الله فیه من عمل ابن آدم ، فإن صحّت نظر فی باقی عمله ، وإن لم تصحّ لم ینظر فی عمل»: دعائم الإسلام ج 1331، تهذیب الأحکام ج 2 ص 237، وسائل الشیعة ج 4 ص 35، جامع أحادیث الشیعة ج 4 ص 6.

ص:59

حضرت امام جعفر صادق علیه السلام نے فرمایا : اگر والدین اپنے بچے کے ساتھ ظلم کریں(اس کی ضروریات کا خیال نہ رکھیں) اور وہ بچہ نفرت اور غصہ سے انہیں دیکھے تو خدا اس اولاد کی نماز قبول نہیں کرتا۔(1)

یعنی شاید والدین اپنی ذمہ داریوں کو ،اچھے طریقہ سے ادانہ کریں لیکن پھر بھی اولاد کو ان کے عزت و احترام میں کمی نہ کرنی چاہیے۔

اور جب والدین نے اپنی ذمہ داریوں کو اچھے طریقے سے نبھا دیا ہو تو پھر؟

لہٰذا ہمیشہ اپنے والدین کی اطاعت کریں، ان کی عزت و احترام کر نے میں کوتاہی نہ کریں۔تاکہ آپ کی نمازیں بارگاہ خداوندی میں قبول ہوں۔اور صرف نمازیں ہی نہیں بلکہ دیگر اعمال بھی قبول ہوں گے۔

وہ لوگ جو ہزاروں نیک کام کرتے ہیں لیکن والدین کی عزت کا خیال نہیں کرتے انہیں ان کی نیکیاں فائدہ نہ پہنچا سکیں گی۔

روز قیامت ،وہ دیکھیں گے کہ ان کا کوئی عمل قبول نہیں ہوا پھر وہ پشیمانی کے آنسو بہائیں گے جب کہ کوئی فائدہ نہ ہوگا۔


1- . الإمام الصادق(علیه السلام): «من نظر إلی أبویه نظر ماقت وهما ظالمان له، لم یقبل الله له صلاة»: الکافی ج 2 ص 349، وسائل الشیعة ج 21 ص 501، بحار الأنوار ج 71 ص 61.

ص:60

مہربانی کا راز؟

میں ایک عیسائی گھرانے میں پیداہوا اور جوانی میں بھی عیسائی رہا ۔ میں شہر کوفہ میں زندگی بسر کرتا اور وہیں کام کاج میں مشغول رہتاتھا۔اپنے شہر میں حضرت اما م جعفرصادق علیه السلام کے بعض اصحاب سے میری د وستی ہوئی اسی کے سبب حقانیت اسلام اور شیعہ کے بارے میں زیادہ آگاہی ہوئی۔آہستہ آہستہ مذہب شیعہ کا گرویدہ ہوگیا، بالآخر دین اسلام کو قبول کیا اور اب حضرت اما م جعفرصادق علیه السلام کے پیروکاروں میں سے ہوں۔

میں اپنی ماں کے ساتھ زندگی بسر کررہا تھا او ر میں نے مناسب نہیں جانا کہ اسے اپنے مسلمان ہونے کی اطلاع دوں۔ڈ ر تھا کہ کہیں میرے رشتہ دار مسائل کھڑے نہ کردیں۔کوفہ کے شیعوں سے میر ا رابطہ گہرا تھا ان کی محافل و مجالس میں شرکت کے باعث اپنی شرعی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوا اورمعارف اہل بیت علیه السلام سے سیراب ہورہا تھا۔

ص:61

آہستہ آہستہ میرے دل میں حضرت اما م جعفر صادق علیه السلام کو دیکھنے کا شوق بڑھ رہا تھا اور میں کسی مناسب موقعہ کی تلاش میں تھاکہ فرصت پاکر زیارت اور ملاقات کا شرف حاصل کروں۔

زیارت کی غرض سے سفر کا ارادہ کیا اور اپنے امام علیہ السلام سے ملاقات کو چل پڑا ۔جب امام علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا امام علیہ السلام نے میرا استقبال کیا میرے لیے دعا کی ۔پہلی ہی ملاقات میں پہلی نصیحت امام نے یہ فرمائی کہ اپنی مسیحی ماں کے ساتھ شفقت سے پیش آؤ۔

ساتھ ہی یہ اطلاع بھی دی کہ جلد ہی تمہاری ماں اس دنیا سے رخصت ہو گی تم اس کے کفن و دفن کا اہتمام خود کرنا۔

چند دنوں کے بعد کوفہ واپس آگیا۔

وہی امام علیہ السلام کی نصیحت میرے کانوں میں گونجتی رہی میری کوشش رہی کہ اپنے منظم انداز سے والدہ کی خدمت کروں تاکہ کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہ ہو۔اب میں خود ہی گھر کے تمام کام کرتا تھا ،کھانا بناتا،کپڑے دھوتا ،خلاصہ جو کچھ بھی میرے ہاتھو ں ہوسکتا کرتا تھا۔

ص:62

کچھ دن گزرے تو ماں نے آواز دی اور کہا: اے میرے بیٹے! کیا ہوگیا ہے تم پہلے اس طرح میرا خیال نہ رکھتے تھے۔جب سے سفر سے واپس آئے ہو آپ کی عادت و اطوار اور کردار بالکل تبدیل ہو گیاہے، بلکہ پہلے سے بہت اچھے ہوگئے ہو۔

نہیں جانتا تھا کہ کیا جواب دوں ،پھر کہا سفر میں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی اس نے کہا تھا ،کہ آپ اپنی ماں کی زیادہ خدمت کرو۔

ماں نے یہ سنا تو سوچ میں پڑ گئی اورپھر کہا کہ جس شخص کی بات کررہے ہو کیا کوئی نبی ہے؟

میں نے کہا: نہیں

ماں نے کہا:بیٹا ! لیکن اس کی باتیں نبیوں والی ہیں۔

میں نے کہا: ماں! وہ امام جعفرصادق علیه السلام ہیں شیعوں کے چھٹے اما م اور حضرت محمد صلی الله علیه و آله و سلم کی اولاد میں سے ہیں۔اور حضرت محمد صلی الله علیه و آله و سلم خدا کے آخری نبی ہیں، میں ان کا گرویدہ ہوگیاہوں۔

ص:63

ماں میری باتیں غور سے سن رہی تھی پھر مجھے مخاطب کیا اور کہا:اپنے نئے دین کے بارے میں مزید کچھ بتاؤ یہ بہترین دین لگ رہاہے۔

میں بھی اسلام کا تعارف کروانے لگا ،میری ماں پر اتنا اثر ہوا کہ شہادتیں کہنے کے بعد مسلمان ہو گئی۔ظہر کا وقت ہوا تو موذن کی آواز کان میں پڑی ۔اٹھا وضو کیا اور نماز کو چل پڑا واپس آکر کھانا کھایا اور کچھ دیر آرام کیا۔

رات کو اچانک ماں کی حالت بگڑ گئی مجھے آواز دی اور کہا مجھے پھر ایک مرتبہ شہادتیں اور ولایت کا کلمہ پڑھاؤ۔

اشہدان لا الہ الا اللّٰہ ،و اشہد ان محمدالرسول اللّٰہ،اشہد ان علیا ولی اللّٰہ

کو زبان پر جاری کیا۔

کچھ دیر کے بعد میری ماں کی آواز بند ہوگئی اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملی۔صبح ہوئی اپنے دوستوں کو اطلاع دی تشیع جنازہ کی اور اپنے ہاتھوں سے اپنی ماں کو دفنایا۔(1)


1- . عن زکریا بن إبراهیم ، قال: «کنت نصرانیاً فأسلمت وحججت، فدخلت علی أبی عبد الله(علیه السلام)فقلت: إنّی کنت علی النصرانیة وإنّی أسلمت ، فقال: وأیّ شیء رأیت فی الإسلام؟ قلت: قول الله عزّ وجلّ: (مَا کُنتَ تَدْرِی مَا الْکِتَابُ وَ لاَ الاِْیمَانُ وَ لَ-کِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِی بِهِ مَن نَّشَآءُ) ، فقال: لقد هداک الله ثمّ قال: اللّهمّ اهده - ثلاثاً - سل عمّا شئت یا بنی ، فقلت إنّ أبی وأُمی علی النصرانیة وأهل بیتی، وأُمّی مکفوفة البصر ، فأکون معهم وآکل فی آنیتهم؟ فقال: یأکلون لحم الخنزیر؟ فقلت: لا، ولا یمسّونه، فقال: لا بأس ، فانظر أُمّک فبرها ، فإذا ماتت فلا تکلها إلی غیرک ، کن أنت الذی تقوم بشأنها، ولا تخبرنّ أحداً أنّک أتیتنی حتّی تأتینی بمنی إن شاء الله . قال: فأتیته بمنی والناس حوله کأنّه معلّم صبیان، هذا یسأله وهذا یسأله، فلمّا قدمت الکوفة ألطفت لأُمّی وکنت أطعمها وافلی ثوبها ورأسها وأخدمها ، فقالت لی: یا بنی ما کنت تصنع بی هذا وأنت علی دینی ، فما الذی أری منک منذ هاجرت فدخلت فی الحنیفیة؟ فقلت: رجل من ولد نبیّنا أمرنی بهذا، فقالت: هذا الرجل هو نبیّ؟ فقلت: لا ، ولکنّه ابن نبیّ ، فقالت: یا بنی ، هذا نبیّ إنّ هذه وصایا الأنبیاء، فقلت: یا أُمّه! إنّه لیس یکون بعد نبیّنا نبیّ ، ولکنّه ابنه، فقالت: یا بنی ، دینک خیر دین ، اعرضه علیّ ، فعرضته علیها ، فدخلت فی الإسلام ، وعلّمتها ، فصلّت الظهر والعصر والمغرب والعشاء الآخرة، ثمّ عرض لها عارض فی اللیل ، فقالت: یا بنی ، أعد علیّ ما علّمتنی! فأعدته علیها، فأقرّت به وماتت. فلمّا أصبحت کان المسلمون الذین غسّلوها، وکنت أنا الذی صلّیت علیها ، ونزلت فی قبرها»: الکافی ج 2 ص 160، بحار الأنوار ج 71 ص 53.

ص:64

توبہ کا بہترین راستہ

گناہ سے بڑھ کر کوئی چیز بھی انسان کو ترقی اور کمال سعادت کی راہ سے دور نہیں کرتی۔شیطان کی بھی ہمیشہ کوشش رہی ہے ،کہ انسان کو بندگی کے سیدھے راستہ سے خارج کرے اور گناہ کے گرداب میں ڈال دے۔

اسی لیے ہمیشہ کوشش کریں، کہ شیطان کے وسوسوں سے بچنے کے لیے خدا سے مدد طلب کریں، اور خدا کی اطاعت و بندگی انجام دے کر اپنے خالق حقیقی سے ملاقات کریں ۔اب میرا سوال یہ ہے کہ ہم کیسے گناہ کے شوم اثرات کو ختم کرسکتے ہیں تاکہ دوبارہ خدا کے لطف و کرم کو پا سکیں؟

ہم سب جانتے ہیں کہ خدا نے اپنے بندوں کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا رکھاہے اور فرمایا ہے کہ اپنے بندوں کی گناہ سے توبہ کرنے کو قبول کرتاہوں۔

خدا وند کریم نے توبہ کرنے والوں سے متعلق اپنے عشق و محبت کا تذکرہ کیا ہے۔

ص:65

شاید سن کرآپ کو عجیب لگے کہ خدا والدین کی عزت و احترام اور ان کے ساتھ نیکی کرنے کے سبب بہت سے گناہوں کو معاف کردیتاہے۔

یہاں پرمناسب ہے، آپ کے لیے ایک حکایت بیان کروں۔

حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم نماز پڑھ چکے تھے ایک جوان مسجد میں داخل ہوا او ر آپ صلی الله علیه و آله و سلم کے بارے میں پوچھا۔

تمام لوگ تعجب کرنے لگے کیسے ہوگیا ہے یہ نوجوان مسجد میں آگیا ہے؟ جبکہ اس کا فسق و فجور مشہور تھا۔

بہرحال ،لوگوں نے اسے آنحضرت صلی الله علیه و آله و سلم کا بتایا وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔سر کو جھکائے عرض کیا۔یارسول اللہ! میں ایک گنہگار انسان ہوں بہت زیادہ گناہوں کا ارتکاب کیاہے ،اب توبہ کرنا چاہتاہوں کیا کوئی راستہ ہے، کہ خدا میری توبہ قبول کرے؟

پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا: اے جوان! کیا تمہاری ماں زندہ ہے؟

ص:66

جوان نے جواب دیا:صرف میرے والد زندہ ہیں والدہ کا انتقال ہوگیاہے۔

آپ صلی الله علیه و آله و سلم نے فرمایا:اے جوان جاؤ! جب تک ہوسکے اپنے والد کی خدمت کرنا۔

جوان بہت خوش ہوگیا۔آنحضرت صلی الله علیه و آله و سلم کا شکریہ ادا کیا اور مسجد سے خارج ہوگیا۔اسی دوران آنحضرت صلی الله علیه و آله و سلم اپنے اصحاب سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: کاش اس کی ماں زندہ ہوتی۔(1)

پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کی مراد یہ تھی، کہ اگر اس جوان کی ماں زندہ ہوتی ،تو اس کی خدمت کرتا تو گناہوں کے اثرات کوبہتر انداز میں ختم کرسکتا۔اور خدا کی خاص رحمت اس کے شامل حال ہوتی۔

اے میرے دوست!

جب تک آپ کے والدین زندہ ہیں اس توفیق سے استفادہ کریں ان کے ساتھ نیکی کریں اچھے طریقے سے پیش آئیں اور خدا کی خاص رحمت کو اپنی جانب مبذول کرائیں۔


1- . الإمام السجّاد(علیه السلام): «جاء رجل إلی النبیّ(صلی الله علیه وآله وسلم) فقال: یا رسول الله ، ما من عمل قبیح إلاّ قد عملته ، فهل لی من توبة؟ فقال له رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم): فهل من والدیک أحد حیّ؟ قال: أبی، قال: فاذهب فبره، قال: فلمّا ولّی قال رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم): لو کانت أُمّه»: کتاب الزهد ص 35، مستدرک الوسائل ج 15 ص 179، بحار الأنوار ج 71 ص 82.

ص:67

خدا کی قسم ،ہم اپنے والدین کی خدمت کرکے اپنے گناہوں کے بوجھ کو کم کرسکتے ہیں جس سے ہماری روح بھی تروتازہ ہوجائے گی۔

کیا موسم خزاں میں دیکھا ہے ،کہ درختوں کے پتے زرد ہوجاتے ہیں؟

کیا دیکھا ہے ،جب ہوا چلتی ہے درختوں کے یہ پتے کس طرح زمین پر گر جاتے ہیں؟

جی ہاں: اگر باطنی نظروں سے دیکھیں کہ والدین کی خدمت کرکے کس طرح ہمارے گناہ جھڑتے ہیں ۔جسے خزاں میں ہوا سے درختوں کے پتے۔

کیا کبھی توجہ کی ہے ،کہ والدین کی اطاعت کرکے کس طرح آپ کی روح ترو تازہ ہو جاتی ہے؟!

یہ تروتازگی اس وجہ سے ہے کہ ہمارے گناہ ختم ہوجاتے ہیں۔

گویا گناہوں نےہماری روح کو جکڑ دیا ہو او ر کھلنے کے بعد آزادانہ طور پر پرواز کرسکتی ہے۔

ص:68

ذرا سوچیں، جس طرح ایک شخص غسل کرکے اپنے جسم کو صاف ستھرا کرکے اپنے اندر تروتازگی کا احساس کرتاہے ،کیونکہ جسم سے میل کچیل صاف ہوچکی ہوتی ہے، اسی طرح جب ہم اپنے والدین کی اطاعت کرتے ہیں، ان کا کہا مانتے ہیں ان کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں ،تو ہماری روح سے گناہوں کے اثرات ختم ہوجاتے ہیں۔

خلاصہ کلام ،جس طرح ہمارا دین نماز،روزہ،استغفار،دعا کو گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بناتاہے، اسی طرح والدین کا احترام اور نیکی کو بھی گناہوں سے مغفرت کابھی بہترین وسیلہ بیان کرتاہے۔

ص:69

والدین کا خیال کرنا ؟

عمران میرا ایک بہت اچھا دوست ہے۔

ایک دن وہ میرے گھر آیا، اور اپنی مشکل کے بارے میں بات کی۔اس کی باتوں کا مقصد یہ ہے کہ کچھ عرصہ سے اس کی زندگی میں برکت ختم ہوگئی ہے،کام کاج خراب ہوگیاہے اور بہت زیادہ مقروض بھی ہوچکاہے۔اس سے قبل سب لوگ اس کے کام کاج پر رشک کرتے تھے کاروبار عروج پر تھا، لیکن اب حالات انتہائی خراب ہیں۔

عمران اپنی مشکلات کے حل کے لیے راہنمائی چاہتا تھا۔وہ ایک مومن اور دیندار انسان تھا ،اپنی دینی ذمہ داریوں پر عمل کرتا تھا اس لیے یہ سوچ رہا تھا کہ مشکلات کی جڑ کیا ہے؟

آپ سے کیا چھپانا ،پریشانی یہ تھی کہ اس کے سارے کام بھی ٹھیک تھے۔ نماز ،روزہ اور فقراہ و مساکین کی مدد کرتا تھا۔

اس سے سوال کیا کہ ان مشکلات کا آغاز کب سے ہوا؟

ص:70

اس نے تھوڑی دیر سوچا اور کہا کہ دو سال قبل میرے والد کا انتقال ہوگیا تھا اچانک میرے ذہن میں کوئی آلارم گونجا خود کو کہنے لگا مجھے اس کی پریشانیوں کا سرا مل گیاہے ۔میں نے کہا ،جب سے آپ کے والد کا انتقال ہوا ہے، یہ مشکلات شروع ہوئی ہیں؟

اس نے ایک آہ بھری اور کہا: میرے والد میری زندگی کی برکت تھے۔ میں ان کی بہت عزت و احترام کرتا تھا۔ہر روز ان سے ملاقات کرتا وہ میرے حق میں دعا کرتے ۔اللہ ان پر رحمت کرے۔

میں نے کہا: سچ بتاؤ جب سے آپ کے والد کا انتقال ہوا ہے تم نے ان کا کتنا خیال رکھاہے؟

کہنے لگا:مصروفیات اتنی بڑھ گئی ہیں مجھے ان کاموں کی فرصت ہی نہیں۔میں نے کہا عمران بھائی تمہاری زندگی کی اندھی گرہ یہاں ہے کہ تو اپنے والد کا عاق ہے؟ اس نے تعجب کیا ،اس نے کہا ،کیاآپ جانتے ہیں کہ جب وہ زندہ تھے میں ان کا کتنا خیال رکھتا تھا۔انہوں نے مجھ سے کئی مرتبہ کہا تھا میں تم سے راضی ہوں۔ میں نے اسے متوجہ کیا:جی ہاں!

ص:71

جب تک تمہارے والد زندہ تھے تم سے راضی تھے۔لیکن جب اس دنیا سے چلے گئے ہیں تم نے ان کے لیے کوئی کام انجام نہیں دیا۔ زندگی میں برکت ختم ہوگئی ہے۔

عمران نے سر کو جھکایا اور سوچ میں پڑ گیا۔

میں نے اپنی بات کو جاری رکھا اور کہا: ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک والدین زندہ ہیں ہم کوشش کرتے ہیں کہ وہ ہم سے خوش رہیں لیکن نہیں جانتے جب اس دنیا سے چلے جاتے ہیں تو انہیں ہماری مدد کی کتنی ضرورت ہوتی ہے۔وہ ہمارے منتظر ہوتے ہیں کہ ان کی قبر پر جائیں ان کے لیے دعا خیر کریں۔

جب ہم ان کاموں کو انجام دیتے ہیں وہ ہم سے بہت خوش ہوتے ہیں ہمارے لیے دعا کرتے ہیں خدا بھی ان کی خوشی کی وجہ سے ہماری زندگی میں خیر و برکت عطا کرتاہے۔

ہم اگر انہیں بھلا دیں، ان کی قبر پر نہ جائیں ان کو یاد نہ کریں ۔وہ ہم سے ناراض ہوجاتے ہیں اور ہم والدین کے عاق ہوجاتے ہیں۔اس وقت

ص:72

ہماری زندگی سے برکت ختم ہوجاتی ہے۔مشکلات ہمیں گھیر لیتی ہیں۔حضرت امام محمد باقر علیه السلام نے فرمایا:"اگر اولاد والدین کی وفات کے بعد انہیں یاد نہ کرے ان کے لیے دعا نہ کرے ۔درحقیقت اولاد والدین کی عاق ہوجاتی ہے"(1)

عمران کو اپنی مشکلات کا حل مل گیا تھا۔اس کی آنکھوں میں آنسو جاری تھے۔

پھر دونوں مل کر اس کے والد کی قبر پر گئے۔

اس نے وہیں اپنے والد کے لیے بہت سے کار خیر انجام دینے کی نیت کی اور عہد کیا کہ ہر ہفتہ اپنے والد کی قبر پر فاتحہ خوانی کےلئےآیا کرے گا۔

ایک ماہ کے بعد دوباہ عمران ہمارے گھر آیا۔اس دفعہ اس کا چہرہ تروتازہ اور شاداب تھا۔اس کی مشکلات حل ہورہی تھیں۔اس کی اپنی زبانی میں جس چیز پر ہاتھ رکھتاہوں سونا بن جاتی ہے۔کیونکہ اس کاباپ اس سے راضی ہے۔


1- . الإمام الباقر(علیه السلام): «إنّ العبد لیکون بارّاً بوالدیه فی حیاتهما ، ثمّ یموتان فلا یقضی عنهما دینهما ولا یستغفر لهما، فیکتبه الله عزّ وجلّ عاقّاً، وإنّه لیکون عاقّاً لهما فی حیاتهما غیر بارٍّ بهما، فإذا ماتا قضی دینهما واستغفر لهما ، فیکتبه الله عزّ وجلّ بارّاً»: الکافی ج 2 ص 163، وسائل الشیعة ج 21 ص 506، بحار الأنوار ج 71 ص 59.

ص:73

اگر ہمارے والدین اس دنیا سے جاچکے ہیں، تو کوشش کریں ان کے لیے کار خیر انجام دیں ،ان کے لیے دعا کریں تو ہماری زندگی میں بھی خیر و برکت آتی ہے۔

عجب بات یہ بھی ہے ،کہ والدین کی وفات کے بعد ان سے نیکی کرنا خدا کو بہت زیادہ پسند ہے اس لیے کہ اب انہیں اس کی زیادہ ضرورت ہے۔

عمل سے ان کا ہاتھ رک گیاہے ،لیکن نامہ اعمال کھلا ہے۔جب اس میں نیکیاں آتی ہیں تو زیادہ خوشی ہوتی ہے(1)


1- . رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم): «سیّد الأبرار یوم القیامة رجل برّ والدیه بعد موتهما»: مستدرک الوسائل ج 13 ص 414، بحار الأنوار ج 71 ص 86.

ص:74

طلب خیرکی چاہت ؟

کربلا کی زیارت کے ثواب کےبارے میں بہت زیادہ بات چیت ہوئی ہے ، اور آئمہ معصومین علیہم السلام نے ہمیں اس کی بہت زیادہ ترغیب و تشویق فرمائی ہے۔

حضرت اما م جعفر صادق علیه السلام کے فرمان سے یوں سمجھا جاسکتاہے کہ جو کوئی بھی کربلا جائے اسے خدا وند عالم بہت زیادہ خیر عنایت کرتاہے۔(1)

جی ہاں، جونہی قدم کربلا کی سرزمین پر رکھتے ہیں ،انسان کو ایک عجیب روحانی عشق و محبت محسوس ہوتی ہے اور انسان تمام خیر و برکات کو محسوس کرتاہے۔

اے میرے دوستو!

اگر ہمیں کربلا جانے کی توفیق حاصل نہ ہو سکے ،تو ہم اس خیر کو کیسے پا سکتے ہیں؟


1- . الإمام الصادق(علیه السلام): «من لم یزر قبر الحسین فقد حرم خیراً کثیراً»: کامل الزیارات ص 285، وسائل الشیعة ج 14 ص 431، بحار الأنوار ج 98 ص 48.

ص:75

شاید بعض لوگ کربلا جاسکتے ہوں ،وہ تو ہر سال یا سال میں کئی مرتبہ اس خیر کو پا سکتے ہیں ،کیا میں ہر روز اس خیر کو حاصل کر سکتاہوں؟ آپ مجھے کیا تجویز کریں گے؟

کیا اس کے جواب کو ،امام صادق علیه السلام کی زبان سے سننا چاہیں گے؟

آنحضرت نے فرمایا:" آپ اپنے والدین کے لیے کارخیر کیوں نہیں کرتے؟ا ن کی نیت سے نماز،روزہ اور حج کیوں نہیں انجام دیتے جان لو جب بھی آپ ان کاموں کو اپنے والدین کی نیت سے انجام دیتے ہیں خدا تمہارے والدین اور تمہیں بھی خیر عطا فرماتاہے۔(1)

اے میرے دوست! ماں باپ خواہ زندہ ہوں یا فوت ہو چکے ہوں ان کے لیے نماز پڑھیں،روزہ رکھیں اور خدا سے صلہ ملنے کا انتظار کریں۔البتہ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں اگرآپ کے والدین زندہ ہوں توان کے واجب نماز،روزہ کو انجام نہیں دیا جاسکتا۔لیکن ان کی نیت سے مستجی نماز و روزہ رکھا جاسکتاہے۔لیکن اگر والدین اس دنیا سے فوت ہو چکے ہوں، تو ان کی واجب نماز اور روزہ کو رکھا جا سکتاہے۔


1- . الإمام الصادق(علیه السلام): «ما یمنع الرجل منکم أن یبرّ والدیه حیّین أو میّتین; یصلّی عنهما، ویتصدّق عنهما، ویحجّ عنهما، ویصوم عنهما، فیکون الذی صنع لهما وله مثل ذلک، فیزیده الله عزّ وجلّ ببرّه وصلاته خیراً کثیراً»: الکافی ج 2 ص 159، مشکاة الأنوار ص 268، وسائل الشیعة ج 2 ص 444.

ص:76

اے میرے دوست! جب بھی مکہ جائیں، ضروران کی طرف سے طواف اور نماز طواف بجا لائیں۔ اگر کسی معصوم کی زیارت یا کسی زیارت پر جائیں ،تو انہیں زیارت میں ضرور یاد رکھیں اور ان کی نیابت میں زیارت انجام دیں۔

جی ہاں، زیادہ خیر کو اپنی طرف جذب کرنے کے دو راستے ہیں

الف: کربلا کا سفر اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت

ب: ابھی وضو کریں اور ماں باپ کی نیت سے دو رکعت نماز

بجا لائیں۔

یا اپنی جیب میں ہاتھ ڈالیں اور ان کی طرف سے صدقہ کریں۔

البتہ یہاں پر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی اہمیت کو کم نہیں کرنا چاہتا ، ہماری تمام ہستی کربلا کے ذرہ ذرہ پر قربان دراصل یہاں پر کربلا والوں کی تعلیمات کو جس میں والدین کا احترام بھی شامل ہے، ایک جدید زاویے سے ثابت کرنا چاہتاہوں ۔

ص:77

شاید آپ کو یاد ہو ،یہ آپ کی والدہ ہی تھیں کہ جو آپ کو گود میں اٹھائے یا انگلی پکڑ کرمجالس عزا امام حسین علیه السلام میں لے کر جاتی تھیں اور گریہ کرتے ہوئے بھی تمہیں دودھ پلاتی تھیں۔ اس کے دودھ میں امام حسین علیہ السلام کے عشق کی تاثیر بھی شامل ہے لہٰذا اسے بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

ص:78

بہت بڑی عباد ت کو کشف کرنا؟

کیا آج تک کبھی یہ سوچاہے کہ خداکا انسان کو خلق کرنے کا مقصد کیا تھا؟

اگر قرآن کی طرف رجوع کریں تو پتہ چلتا ہے کہ خدا نے ہمیں عبات کے لیے خلق کیا ہے۔(1)

البتہ اس عبادت و بندگی خدا وند کا خدا کو کوئی فائدہ نہیں، بلکہ اس کے سایہ میں ہماری روح نے رشد کی ہے اور بڑے مقام تک پہنچے ہیں۔

جی ہاں، ہم جتنی زیادہ عبادت کریں اتنا ہی زیادہ خدا کے نزدیک ہوں گے۔ اور اتنا ہی زیادہ اپنی ابدی سعادت کو پاسکتے ہیں۔

اگر زندگی میں انسان کو دعاوعبادت کی ضرورت نہ ہو ،تو روح انسانی اپنی لطافت کو ختم کردے اور انسان کا دل روزمرہ کی تاریکیوں اور گمراہیوں میں ہی گم ہو جائے ،بے شک خدا کی عبادت کرنے سے انسان کا دل تروتازگی پاتاہےاور اس پر یقین ہونا چاہیے۔کہ خدا کی عبادت و نیائش کے ذریعہ ہی روح انسانی کو آرام و سکون ملتا ہے۔

قارئین محترم!


1- . الذاریات ایه 56: (وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الاِْنسَ إِلاَّ لِیَعْبُدُونِ)، وإمام صادق نیز در ذیل این آیه فرمودند: «خلقهم لیأمرهم بالعبادة»: علل الشرائع ج 1 ص 13.

ص:79

آپ سے سوال کرتاہوں :کہ جب لفظ عبادت کو سنتے ہیں پاپڑھتے ہیں تو آپ کے ذہن میں کیا چیز آتی ہے؟

میں سمجھتا ہوں شاید آپ کا جواب ہو، نماز ،روزہ،حج وغیرہ لیکن میں چاہتا ہوں کہ یہاں پر آپ کو ایک اور عبادت سے متعلق آگاہ کروں ۔شاید آپ نے اس کی طرف کم توجہ کی ہو۔

کتاب کو رکھیں اور اپنے ماں باپ کی پیشانی کابوسہ لیں۔یقین کریں آپ نے ایک بہت بڑی عبادت انجام دی ہے کیونکہ مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں ۔’’والدین کے چہرے کا بوسہ لینا عبادت ہے۔‘‘(1)

جی ہاں،ماں باپ کے چہرے کا بوسہ لینا بعنوان عبادت شمار ہوا ہے!

جی ہاں ،نماز روزہ اپنی جگہ پر بہت بڑی عبادات ہیں ،کہ جن کا بجا لانا بہت ضروری ہے ،لیکن یہ عبادات انسان کی زندگی کے باقی امور کے ساتھ بھی متصل ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ایک عبادت کو انجام دیں اور دوسری کو خراب کریں یعنی اہمیت نہ دیں۔ عام طور پر معاشرہ میں دیکھا جاتاہے کہ جو انسان ذرا دین کی طرف آتاہے تو باقی سماجی ذمہ داریوں سے کٹ


1- . أمیر المؤمنین(علیه السلام): «قبلة الولد رحمة ، وقبلة المرأة شهوة ، وقبلة الوالدین عبادة ، وقبلة الرجل أخاه دین»: مکارم الأخلاق ص 220، بحار الأنوار ج 101 ص 93، جامع أحادیث الشیعة ج 21 ص 416.

ص:80

جاتاہے ،دین و عبادت انسان کو زندگی سے کاٹنے کے لیے نہیں ،بلکہ جوڑنے کے لیے آئے ہیں۔اور چونکہ عبادت صرف چند اعمال کا نام نہیں ،بلکہ رضایت خدا کے حصول کا ذریعہ ہے، تواب خدا نے جن چیزوں کو اپنی رضایت کے حصول کے لیے بیان کیاہے۔ان سب پر عمل کرنا ایک مسلمان ،مومن کی ذمہ داری ہے۔

ہم عبادت کو چھوٹابڑا کیوں خیال کرتے ہیں، ممکن ہے کچھ عبادت کے بجا لانے کے لیے زیادہ وقت اور سرمائے کی ضرورت ہو اور کسی عبادت کو ان چیزوں کی ضرورت ہی نہ ہو، تو کیا و ہ امور عبادت شمار نہ ہوں گے یقیناًہوں گے ،جب عبادت خدا کو خوش کرنے کا نام ہے، تو پھرچھوٹا بڑا بے معنی ہوجاتاہے۔

یہ سوال ہم اپنے آپ سے اور دوسروں سے کرسکتے ہیں، کہ جب اہل بیت علیه السلام نے ان امور کو عبادت شمار کیاہے تو ہم نے اس پر کتنی توجہ دی ہے کتنے اہتمام کے ساتھ اپنے والدین کا بوسہ لیاہے؟

ص:81

ذرا تصور تو کریں کہ ہم صرف ایک بلا زحمت عبادت انجام دیں ،تو کتنے گناہوں سے بچ سکتے ہیں ،والدین کی نافرمانی سے بچ سکتے ہیں،ان کو نظر انداز کرنے سے بچ سکتے ہیں، ان کی اطاعت و فرمانبرداری کے قریب آسکتے ہیں؟

تو پھر،کیا ہمیں اس عبادت کو اہتمام کے ساتھ انجام نہیں دینا چاہیے۔

ص:82

جنت کی خوشبو کااحساس ؟

یہاں پر قیامت کا میدان ہے اور تمام لوگ حساب و کتاب کے لیے جمع ہیں۔

اچانک ایک خوبصورت خوشبو کا احساس ہوتاہے۔

ہر کوئی ایک دوسرے سے پوچھتا ہے کہ یہ خوشبو کہاں سے آرہی ہے کہ جس نے ہمیں اتنا مدہوش کردیاہے؟!

میں نے اسی دوران ایک فرشتے سے پوچھا کہ یہ خوشبو کہاں سے آرہی ہے؟!

اس نے جواب دیا:’’ خدا نے اپنے نیک بندوں کے لیے جنت کو تیار کیاہے اور خدا کے حکم سے جنت کے آگے سے پردہ اٹھا دیا گیاہے اسی لیے میدان قیامت میں اس کی خوشبو چھائی ہوئی ہے۔‘‘

تمام نیک اور گنہگار انسان اس خوشبو کو محسوس کرتے ہیں لیکن ایک گروہ اس خوشبو کو ہر گز محسوس نہ کرے گا۔

کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں؟

ص:83

کہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اپنے والدین کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آتے تھے!

وہ کہ جو والدین (ماں باپ)کے عاق ہوگئے ہیں۔(1)

یقیناً آپ جانتے ہیں ،کہ جس سے اس کے والدین ناراض ہوں اصطلاح میں اسے عا ق والدین کہا جاتاہے۔

ہمیں اچھی طرح خیال رکھنا چاہیے، کہ ہم ان لوگوں میں سے نہ ہوں جن کے والدین ان سے راضی نہیں اور وہ عاق والدین ہو چکے ہوں۔

کیونکہ عاق والدین ایسا گناہ ہے، کہ جس کی سزا اس دنیا میں بھی ملتی ہے برکت اس کی زندگی سے ختم ہوجاتی ہے،اسکی عمر کم ہو جاتی ہے،وہ اپنی زندگی میں خیر کو نہیں دیکھتا۔۔(2)

جو کوئی والدین کا عاق ہو جائے ،اپنی زندگی میں عزت و سربلندی کو نہیں دیکھ سکتا۔بلکہ اس نے اپنے آپ کو ذلت و خواری کے لیے آمادہ کر لیاہے۔(3)


1- . الإمام الصادق(علیه السلام): «إذا کان یوم القیامة ، کُشف غطاء من أغطیة الجنّة، فوجد ریحها من کانت له روح من مسیرة خمسمئة عام، إلاّ صنفاً واحداً، قلت: من هم؟ قال: العاقّ لوالدیه»: الکافی ج 2 ص 348، مستدرک الوسائل ج 15 ص 195، بحار الأنوار ج 71 ص 60. الإمام الباقر(علیه السلام): «قال رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم) فی کلام له: إیّاکم وعقوق الوالدین، فإنّ ریح الجنّة توجد من مسیرة ألف عام، ولا یجدها عاقّ ولا قاطع رحم، ولا شیخ زان ولا جار إزاره خیلاء ، إنّما الکبریاء لله ربّ العالمین»: الکافی ج 2 ص 349، معانی الأخبار ص 330، مکارم الأخلاق ص 109.
2- . رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم): «ثلاثة من الذنوب تعجل عقوبتها ولا تؤخّر إلی الآخرة: عقوق الوالدین، والبغی علی الناس، وکفر الإحسان»: الأمالی للمفید ص 237، الأمالی للطوسی ص 14، بحار الأنوار ج 70 ص 373، جامع أحادیث الشیعة ج 13 ص 536.
3- . الإمام الهادی(علیه السلام): «العقوق یعقب القلّة ویؤدّی إلی الذلّة»: مستدرک الوسائل ج 15 ص 195، بحار الأنوار ج 71 ص 84.

ص:84

کیا جانتے ہیں کہ قیات کے دن خدا وند اصلاً عاق والدین کی طرف لطف و کرم سے نگاہ بھی نہیں کرے گا؟(1)

مجھے اور آپ کو اپنے عمل(کردار) کو اچھی طرح سے دیکھنا چاہیے کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے والدین ہم سے راضی نہ ہوں ،کیونکہ حضرت امام علی علیه السلام نے فرمایا: ’’ جو کوئی اپنے والدین کو تنگ کرے گا وہ عاق والدین ہوگا۔‘‘(2)

اس لئے جب بھی شیطان نے تجھے دھوکہ دیا اور آپ نے کوئی ایسی بات کردی ، جس سے ماں باپ ناراض ہو گئے تو فوراً ان سے عذر خواہی کریں معافی مانگیں اور جب تک وہ تمہیں معاف نہ کردیں ان کی خدمت سے نہ اٹھو۔

والدین کی طرف تیز نگاہوں سے دیکھنا بھی، ایک قسم کا عاق ہونا ہے۔(3)

بہر حال ،اگر سعادت و خوش بختی کے راز کو ایک جملہ میں سمیٹا جائے، تو کہا جائے گا کہ والدین کا احترام کریں اور نیکی سے پیش آئیں۔


1- . رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم): «أربعة لا ینظر الله إلیهم یوم القیامة: عاقّ، ومنّان، ومکذّب بالقدر، ومدمن خمر»:الخصال ص 203، عیون الحکم والمواعظ ص 72، بحار الأنوار ج 71 ص 74، المعجم الکبیر ج 8 ص 241، الجامع الصغیر ج 1 ص 143.
2- . أمیر المؤمنین(علیه السلام): «من أحزن والدیه فقد عقّهما»: الخصال ص 621، تحف العقول ص 111، بحار الأنوار ج 71 ص 72. وکذلک روی عن رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم): کتاب من لا یحضره الفقیه ج 4 ص 372، وسائل الشیعة ج 21 ص 390، مستدرک الوسائل ج 15 ص 127.
3- . الإمام الصادق(علیه السلام): «وعلم الله شیئاً أدنی من أُفّ لنهی عنه، وهو من أدنی العقوق، ومن العقوق أن ینظر الرجل إلی والدیه فیحدّ النظر إلیهما»: الکافی ج 2 ص 349، وسائل الشیعة ج 21 ص 502، بحار الأنوار ج 71 ص 64.

ص:85

میں یہ نہیں کہنا چاہتا ،کہ تمام ماں باپ بے عیب و بے نقص ہیں۔

میں یہ بھی نہیں کہتا کہ والدین کی اچھائی کے بدلہ میں ان سے نیکی کریں ،نہیں بلکہ میری بات یہ ہے کہ ماں باپ کا احترام خدا کی وجہ سے کریں،یہاں پر والدین سے مراد صرف اچھے ہی نہیں بلکہ وہ بھی جو اچھے نہ بھی ہوں۔کیونکہ اگر آپ ان والدین کا احترام کریں کہ جو اچھے ہیں تو کوئی کمال کی بات نہیں ہے بلکہ خدا تو اس وقت زیادہ خوش ہوتاہے کہ جب آپ خطا کار والدین کا بھی احترام کریں۔

میں یہ نہیں کہہ رہا ،کہ آپ ان کی غلط بات کو قبول کریں ،آپ عقل و شعور رکھتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے ساتھ بے احترامی اوردوسروں کا احترام کیا جائے۔

اے جوان عزیز! اپنے والدین کا احترام کریں اگرچہ وہ غیر مسلمان ہی کیوں نہ ہوں۔ والدین کا احترام کریں اگرچہ وہ خدا پرست بھی نہ ہوں! یہ اسلام کا حکم ہے۔

ص:86

اگر آپ کے والدین ،آپ کو شریعت کی خلاف ورزی کا حکم دیں ،تو ان کی بات نہ مانیں،لیکن پھر بھی ان کے ا حترام کا خیال رکھا جائے۔

والدین کے احترام کی شرائط یہی ہیں اگر آپ سعادت کے طلبگار ہیں تو ان کا احترام کریں اور ان کے حق میں نیکی کریں۔

ایک شخص حضرت امام رضاعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی:

’’میرے والد کافر ہیں ان کے لیے میرے لیے کیا حکم ہے؟‘‘

حضرت امام رضاعلیہ السلام نے فرمایا: "ان کے ساتھ بھی تواضع سے پیش آئیں۔کیونکہ پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم نے فرمایا: خدا نے دین اسلام کو مہربان دین قرار دیا ہے"(1)

میری جان آپ پر قربان اے امام رضا، آپ نے حکم دیاکہ آپ کے شیعہ اپنے کافر ماں باپ کے ساتھ بھی مہربانی و شفقت سے پیش آئیں ،لیکن کاش اگر آپ آج ہوتے، تو دیکھتے کہ ذرا سے اختلاف سلیقہ کی وجہ سے اولاد اپنے والدین کے ساتھ کس طرح پیش آتی ہے۔


1- . عن معمر بن خلاّد قال: «قلت لأبی الحسن الرضا(علیه السلام): أدعو لوالدیّ إذا کانا لا یعرفان الحقّ؟ قال: ادع لهما وتصدّق عنهما ، وإن کانا حیّین لا یعرفان الحقّ فدارهما، فإنّ رسول الله6 قال: إنّ الله بعثنی بالرحمة لا بالعقوق»: الکافی ج 2 ص 159، وسائل الشیعة ج 21 ص 490، مستدرک الوسائل ج 15 ص 179.

ص:87

افسوس ہے ان مسلمانوں پر جنہوں نے اپنی اسلامی تعلیمات کو بھلادیا۔ نماز تو پڑھ لی ،لیکن اپنے مسلمان والدین کو مسلمان نہیں سمجھتے۔میں یہ بات بھول نہیں سکتا۔ایک دن ایک شخص میرے پاس آیا۔اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے مجھ سے درد دل کرنے آیا تھا اور کہہ رہا تھا کہ تازہ تازہ میرا بیٹا اہل عرفان ہوا ہے ،صبح و شام نماز پڑھتاہے اور مجھے کہتاہے کہ تم کافر ہو،کیوں؟ اس لیے کے بعض مسائل میں اس سے اختلاف رکھتاہوں کوئی بھی اسے یہ بتانے والا نہیں کہ تونے اس مسلمانی کو اسی باپ سے سیکھاہے،تجھے نماز سکھائی،مسجد میں بھیجا۔بہرحال اب فیصلہ کرلیں کہ ہر صورت میں والدین کے احترام پر سمجھوتا نہیں کریں گے اور ہمیشہ ان کے ساتھ نیکی کریں گے۔

بہت اچھا لگے گا ،اگر پوری توجہ سے آپ نے حضرت اما م محمد باقر علیه السلام کے اس فرمان پر توجہ دی۔ آپ صلی الله علیه و آله و سلم نے فرمایا: "خدا نے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کو واجب قرار دیاہے خواہ وہ نیک انسان ہوں یا گنہگار"(1)


1- . الإمام الباقر(علیه السلام): «ثلاث لم یجعل الله عزّ وجلّ لأحد فیهنّ رخصة: أداء الأمانة إلی البرّ والفاجر، والوفاء بالعهد للبرّ والفاجر، وبرّ الوالدین برّین کانا أو فاجرین»: الکافی ج 2 ص 162، وسائل الشیعة ج 21 ص 490، بحار الأنوار ج 71 ص 56.

ص:88

جی ہاں، یہ خدا کا قانون ہے ،کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ میرے والدین اچھے انسان نہ تھے گنہگار اورمعصیت کار تھے، اس لیے میں نے ان کے ساتھ یہ سلوک کیا!ہمیں ہر قسم کے حالات میں اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنا چاہیے ،کیونکہ یہی حکم خدا ہے۔

اے میرے دوست! اگر خدا نخواستہ آپ نے اپنے والدین کو ناراض کیا ہے ان کا دل توڑا ہے ابھی اس کتاب کو رکھیں ان کے پاس جائیں ان کے چہرے کا بوسہ لیں اور معافی مانگیں اور اپنے عمل سے ثابت کریں کہ آپ اپنے کیے پر پشیمان ہیں اور جیسے بھی ہو سکے انہیں راضی کریں ،تاکہ خدا بھی آپ سے راضی ہو۔ کیا آپ نہیں جانتے ،اگر آپ خدا کو خوش کرنا چاہتے ہیں ،تو اپنے والدین کو خوش کریں؟!

جب تک آپ کے والدین آپ سے ناراض ہیں ،خدا بھی آپ سے ناراض ہے۔پس کوشش کریں کہ والدین کو راضی رکھیں ،تاکہ خدا تک جانے کا راستہ ہموار ہو سکے۔

ص:89

شاید کوئی ایسا شخص بھی ہو، جو والدین کا نافرمان ہو ،لیکن اب اس کے والدین اس دنیا میں نہ ہوں ،تواب وہ ان سے بات نہیں کر سکتا ان کا احترام نہیں کر سکتا تو اس صورت میں کیا کرے؟

خوش نصیبی ہے ،ہم اس مشکل کو حضرت امام جعفر صادق علیه السلام کے فرمان سے حل کر سکتے ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیه السلام نے فرمایا: "اگر کوئی اپنے والدین کی زندگی میں ان کی نافرمانی کرے اور عاق ہو چکاہو ان کے لیے نماز پڑھ سکتاہے روزہ رکھ سکتاہے ان کی نیت سےکارخیرانجام دے سکتاہے"(1)

یہاں پر اہل بیت اطہار علیه السلام کے ارشادات میں چند نکات کی طرف اشارہ کیا گیاہے،جنہیں آپ کے لیے بیان کرتاہوں۔

کبھی بھی ان کی طرف تیز نگاہوں سے نہ دیکھیں،بلکہ ہمیشہ پیار و محبت بھری نظروں سے انہیں دیکھیں۔

کبھی بھی اپنی آواز ان کی آواز سے اونچی نہ کریں۔

کوشش کریں ،کبھی بھی والدین کو ان کے نام کے ساتھ نہ پکاریں ۔


1- . الإمام الصادق(علیه السلام): «یکون الرجل عاقّاً لوالدیه فی حیاتهما، فیصوم عنهما بعد موتهما، ویصلّی ویقضی عنهما الدین، فلا یزال کذلک حتّی یکتب بارّاً بهما ، وإنّه لیکون بارّاً بهما فی حیاتهما ، فإذا مات لا یقضی دینهما ولا یبرّهما بوجه من وجوه البرّ ، فلا یزال کذلک حتّی یُکتب عاقّاً»: مستدرک الوسائل ج 2 ص 114، بحار الأنوار ج 71 ص 85.

ص:90

کبھی چلتے ہوئے والد سے قدم آگےنہ رکھیں۔

کبھی بھی محفل میں والد کے بیٹھنے سے پہلے نہ بیٹھیں۔

ہمیشہ ان کے سامنے خضوع و خشوع سے بیٹھیں۔اگر انہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو اتنی تاخیر نہ کریں کہ انہیں اس کے بارے میں سوال کرنا پڑے ،بلکہ آپ کو ان کے سوال سے پہلے پورا کر دینا چاہیے۔

ان کے سامنے بالخصوص بڑھاپے میں صبر سے پیش آنا چاہیے، پس جان لو یہی وہ راستہ ہے جس سے تم خدا کی رضایت کو خرید سکتے ہو۔(1)

خدا وند عالم سے دعاہے ،ہم سب کو اپنے والدین کی قدر ، عزت و تکریم کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی زندگی اور بعد از موت بھی ان کے لیے کار خیر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)


1- . عن أبی ولاّد الحنّاط قال: «سألت أبا عبد الله(علیه السلام) عن قول الله عزّ وجلّ: (وَ بِالْوَ لِدَیْنِ إِحْسَانًا) ، ما هذا الإحسان؟ فقال: الإحسان أن تحسن صحبتهما، وأن لا تکلّفهما أن یسألاک شیئاً ممّا یحتاجان إلیه وإن کانا مستغنیّین، ألیس یقول الله عزّ وجلّ: (لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّی تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ)...»: الکافی ج 2 ص 157، وسائل الشیعة ج 21 ص 488. الإمام الکاظم(علیه السلام): «سأل رجل رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم): ما حقّ الوالد علی ولده؟ قال: لا یسمّیه باسمه، ولا یمشی بین یدیه، ولا یجلس قبله، ولا یستسب له»: الکافی ج 2 ص 159، بحار الأنوار ج 71 ص 45.

ص:91

ص:92

ص:93

ص:94

ص:95

ص:96

ص:97

ص:98

ص:99

ص:100

ص:101

ص:102

کے بارے میں مرکز

بسم الله الرحمن الرحیم والحمد الله رب العالمین
کوثر وجود زهرائے مرضیه سلام الله علیہا کی بارگاہ میں پیش ہے
هَلْ یَسْتَوِی الَّذِینَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ
کیا علم والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟ سوره زمر/ 9
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کئی سالوں سے، قائمیہ کمپیوٹر ریسرچ سینٹر موبائل سافٹ ویئر، ڈیجیٹل لائبریریاں تیار کر رہا ہے، اور انہیں مفت میں پیش کر رہا ہے۔ یہ مرکز مکمل طور پر مقبول ہے اور اسے تحائف، نذر، اوقاف اور امام علیہ السلام کے بابرکت حصے کی تقسیم سے تعاون حاصل ہے۔ مزید خدمت کے لیے، آپ جہاں کہیں بھی ہوں مرکز کے خیراتی لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر پیسہ اہل بیت علیہم السلام کی راہ میں خرچ کرنے کا مستحق نہیں ہے؟
اور ہر شخص کو یہ کامیابی نہیں ملے گی؟
آپ کو مبارک ہو.
کارڈ نمبر :
6104-3388-0008-7732
بینک میلات اکاؤنٹ نمبر:
9586839652 ۔
شیبا اکاؤنٹ نمبر:
IR390120020000009586839652
نام: (غامیہ کمپیوٹر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ)
اپنے تحفے کی رقم جمع کروائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرکزی دفتر کا پتہ:
اصفہان –خیابان عبدالرزاق - بازارچه حاج محمد جعفر آباده ای - کوچه شہید محمد حسن توکلی -پلاک 129- طبقه اول
ویب سائٹ: www.ghaemiyeh.com
ای میل: Info@ghbook.ir
مرکزی دفتر ٹیلی فون: 00983134490125
تہران ٹیلی فون: 88318722 021
تجارت اور فروخت: 00989132000109
صارفین کے معاملات: 00989132000109